اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ

اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء ان کا قصیدہ
لکھ جیسے وہ ہیں ایسا نہ دیدہ نہ شنیدہ

جب یاد کیا قلب ہو ا نافہ آہو
جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدم

دیکھا ہے بلندی پہ ہر اِک جا سرِ افلاک
لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ

حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو
اچھا ہے وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ

کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ
اے رحمتِ عالم ! تیری رحمت کا خریدا

امت ہے بہت زار و پریشان کرم کر
چادر بھی دریدہ ہوئی ، دامن بھی دریدہ

وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر
آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ

محتاج نہ ہوگا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے
اس مصطفٰے و منعم کی سخاوت کا قصیدہ

محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں
گو خواب سہی، ہوں رخِ انوار کی دیدہ

بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا
آواز یہ دیتے ہیں تن و قلب تپیدہ

لایا درِ رحمت پہ مجھے جادۂ رحمت
کافی مری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ

جس راہ سے گُذرا ہے ادیب ان کی ثناء میں
رخشندہ وہ تابندہ ، درخشاں و و میدہ