بے خود کیےدیتے ہیں اندازِ حجابانہ

بے خود کیےدیتے ہیں اندازِ حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اۓ جلوۂ جانانہ!

بس اتنا کرم کرنا اۓ چشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو ، تم سامنے آجانا

جب تم نے مجھے اپنا ،دنیا میں بنایا ہے
محشر میں بھی کہہ دینا یہ ہے میرا دیوانہ

جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں انہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ

پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا مئے خانہ

کیوں آنکھ لگائی تھی؟ کیوں آنکھ ملائی تھی؟
اب رُخ کو چھپا بیٹھے ، کر کے مجھے دیوانہ !

بیدؔم میری قسمت میں، سجدے ہیں اِسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا ، سنگِ درِ جانانہ