سوزِ دل چاہیے، چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے

ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر، آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے

 

ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں، لب کشائی کی جرات مناسب نہیں

ان کی سرکار میں التجا کے لئے،جنبشِ لب نہیں، چشمِ تر چاہیے

 

اپنی رو داد غم میں سناوؔں کسے، میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا؟

جس کی خاکِ قدم بھی ہے خاکِ شفا، میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے

 

رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں، اب میں آنکھوں کو اپنی کروں گا بھی کیا

اب نہ کچھ دیدنی ہے، نہ کچھ گفتنی، مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے

 

میں گدائے درِ شاہِ کونین ہوں، شیش محلوں کی مجھ کو تمنّا نہیں

ہو میسر زمیں پہ کہ زیرِ زمیں، مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے

 

ان نئے راستوں کی نئی روشنی، ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی

ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے، ہم کو آئیںِ خیر البشر چاہیے

 

گوشہ گوشہ مدینےکا پر نور ہے، سارا ماحول جلووؔں سے معمور ہے

شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے، دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے

 

مدحتِ شاہِ کون و مکاں کے لیے صرف لفظ وبیاں کا سہارا نہ لو

فنِ شعری ہے اقبال اپنی جگہ، نعت کہنےکو خونِ جگر چاہیے

شاعر :پروفیسر ڈاکٹر اقبالؔ عظیم

No comments yet

میں تو خود ان کے درکا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

اب تو آنکھوں میں کچھ بھی نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھادوں

 

آنے والی ہے ان کی سواری پھول نعتوں کے گھر گھر سجادوں

میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلادوں

 

میری جھولی میں کچھ نہیں ہے میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے

اپنی آنکھوں کی چاندی بہادوں اپنے ماتھے کا سونا لٹادوں

 

بے نگاہی پہ میری نہ جائیں دیدہ در میرے نزدیک آئیں

میں یہیں سے مدینہ دکھادوں دیکھنے کا سلیقہ سکھادوں

 

روضہ پاک پیشِ نظر ہے سامنے میرے آقا کا در ہے

مجھ کو کیا کچھ نظر آرہا ہے تم کو لفظوں میں کیسے بتادوں

 

قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہو

یا لپٹ جاؤں قدموں سے ان کے یا قضا کو میں اپنی صدا دوں

 

میری بخشش کا ساماں یہی ہے اور دل کا بھی ارماں یہی ہے

بس ایک دن ان کی خدمت میں جا کر ان کی نعتیں انہی کو سنا دوں

 

میرے آنسو بہت قیمتی ہیں ان سے وابستہ ہیں ان کی یادیں

ان کی منزل ہے خاک مدینہ یہ گہر یوں ہی کیسے لٹادوں

 

مجھ کو اقبال نسبت ہے ان سے جن کا ہر لفظ جانِ سخن ہے

میں جہاں نعت اپنی سنادوں ساری محفل کی محفل جگادوں

شاعر :پروفیسر ڈاکٹر اقبالؔ عظیم

No comments yet

میں سو جاؤں یا مصطفٰی کہتے کہتے

کھلےآنکھ صلی علیٰ کہتے کہتے

 

میں والیل پڑھنے لگا بے خودی میں

تیری زلف کا ماجرا کہتے کہتے

 

قیامت میں جب میں نے حضرت کو دیکھا

تڑپنے لگا والضحیٰ کہتے کہتے

 

نبی کی زیارت مد ینے میں ھو گی

مد نیے یہی چل دیا کہتے کہتے

 

ہزارو ہویئں مشکلیں میری آساں

فقط ایک مشکل کشا کہتے کہتے

 

وہ مالک ہے سب کا وہ بخشے گا سب کو

بُرا کہتے کہتے بھلا کہتے کہتے

شاعر :پروفیسر ڈاکٹر اقبالؔ عظیم

No comments yet

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ، میرے آقا نےعزت بچالی

فردِ عصیاں مری مجھ سے لےکر، کالی کملی میں اپنی چھپالی

 

وہ عطا پر عطا کرنےوالے اور ہم بھی نہیں ٹلنے والے

جیسی ڈیوڑھی ہے ویسے بھکاری، جیسا داتا ہے ویسےسوالی

 

میں گدا ہوں مگر کس کےدر کا؟ وہ جو سلطانِ کون و مکاں ہیں

یہ غلامی بڑی مستند ہی، میرے سر پر ہے تاجِ بلالی

 

میری عمرِ رواں بس ٹھہر جا، اب سفر کی ضرورت نہیں ہے

ان کےقدموں میں میری جبیں ہے اور ہاتھوں میں روضے کی جالی

 

اِس کو کہتےہیں بندہ نوازی ، نام اِس کا ہے رحمت مزاجی

دوستوں پر بھی چشمِ کرم ہے، دشمنوں سےبھی شیریں مقالی

 

میں مدینے سےکیا آگیا ہوں ، زندگی جیسےبجھ سی گئی ہے

گھر کےاندر فضا سونی سونی، گھر کےباہر سماں خالی خالی

 

کوئی بادِ مخالف سے کہدے، اب مری روشنی مجھ سے چھینے

میں نے آنکھوں کی شمعیں بجھا کر، دل میں طیبہ کی شمع جلالی

 

میں فقط نام لیوا ہوں ان کا، ان کی توصیف میں کیا کروں گا

میں نہ اقبؔال خسرؔو، نہ سعدؔی ، میں نہ قدسؔی نہ جامؔی ، نہ حاؔلی

شاعر :پروفیسر ڈاکٹر اقبالؔ عظیم

No comments yet

جہاں روضۂ پاک خیرالوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟!
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں تو پھر کیا ہے

محمد ﷺ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحبِ قابَ قوسین ٹھررے
بَشر کی سرِعرش مہمان نوازی یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

جو عاصی کو کملی میں اپنی چھپالے جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعادے
اسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر کیا ہے

قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے تو پھر کیا ہے

تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں یہ جرأت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

شاعر :پروفیسر ڈاکٹر اقبالؔ عظیم

No comments yet

فاصلوں کو تکلّف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود ان ہی کو پکاریں گے ہم دور سے ، راستے میں اگر پاؤ ں تھک جائیں گے

جیسے ہی سبز گمبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جا ئے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کِسے ، خود ہی آنکھوں سے سجدے سے ٹپک جائیں گے

ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے ، اور گلیوں میں قصدًا بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جاکے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈ تے ڈھونڈتے لو گ تھک جائیں گے

نام ان کا جہاں بھی لیا جائیگا ، ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائیگا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائیگا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے

اۓ مدینے کے زائر! خدا کے لیے ، داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائیگا، بات بڑھ جائیگی ، میرے محتاط آنسوں چھلک جائیں گے

ان کی چشمِ کر م کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوق ِ سفر ؟
ہم کو اقبالؔ جب بھی اجاز ت ملی ، ہم بھی آقا کے در بار تک جائیں گے

شاعر :پروفیسر ڈاکٹر اقبالؔ عظیم

No comments yet