عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ

عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ
گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ

لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی
تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ

کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں
جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ

دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا
بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ

اِک میں ہی نہیں ہجر میں ، افلاک کا عالم
دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ

اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف
آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ

ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت
الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ

خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر
بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ

بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے
کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ

جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت
ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ

دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے
اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ

رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جُھکا ئے
دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ