خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری

خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری
سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری

یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیٔ شہِ دیں
اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری

غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف
حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری

امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول
انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری

متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے
نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری

وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب
سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری