کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا

کیا شور ذکر و فکر، دعا پنجگانہ کیا
آتا نہیں ہے عشق میں آنسو بہانا کیا

آنکھیں بھی اشکبار ہیں لب پر درود بھی
رحمت کو اب بھی چاہیے کوئی بہانہ کیا

رکھا جو ہاتھ سینے پہ دھڑکن نہیں ملی
دل، ہو گیا مدینے کی جانب روانہ کیا ؟

وہ بھی ہیں آستاں بھی ہے، کردے نثار جاں
پھر لوٹ کر اب آئے گا ایسا زمانہ کیا

موسیٰ علیہ السلام کا حال مانعٔ حسرت ہوا ہمیں
تابِ نظر نہیں ہو تو نظریں اٹھانا کیا

تسبیح دانے دانے مُصلّا ہے تار تار
آیا ہے خانقاہ میں کوئی دوانہ کیا

ڈرتا ہے کس لیے غمِ دوراں سے رات دن
پالا نہیں ہے تو نے غمِ عاشقانہ کیا

یہ مرحلہ ہے زیست کا طے کر اسے بھی
اب مر کے ہوگا سوئے مدینہ روانہ کیا

دیدار بھی حضور کا ، کوثر کا جام بھی
دیکھو قصیدہ لکھ کے ملا ہے خزانہ کیا

سر کو جھکا دیا جو درِ یار پر ادیؔب
جب تک قضا نہ آئے تو سر کو اٹھا نا کیا