کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ ٔ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

مانگ من مانتی منھ مانگی مُراد یں لے گا
نہ یہاں “نا” ہے نہ منگتا سے یہ کہنا “کیا ہے ”

پند کڑوی لگی ناصح سے ترش ہوا ے نفس
زہر عِصیاں میں سِتمگر تجھے میٹھا کیا ہے

ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے

ان کی امّت میں بنا یا انہیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترارحم میں دعویٰ کیا ہے

صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے

زاہد اُن کا میں گنہ گار وہ میرے شافع
اتنی نِسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے

بے بسی ہو جو مجھے پرسش ِ اعمال کے وقت
دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے

کاش فریاد مری سُن کے یہ فَرمائیں حضور
ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے

کون آفت زدہ ہے کِس پہ بلا ٹوٹی ہے
کِس مصیبت میں گرفتار ہے صدمہ کیا ہے

کِس سے کہتا ہے کہ للہ خبر لیجیے مِری
کیوں ہے بیتاب یہ بے چینی کا رونا کیا ہے

اس کی بے چینی سے ہے خاطِر ِ اقداس پہ ملال
بے کسی کیسی ہے پوچھو کوئی گزرا کیا ہے

یوں ملائک کریں معروض کہ اِک مجرم ہے
اس سے پرسش ہے بتا تو نے کیا کیا ہے

سامنا قہر کا ہے دفتر ِ اعمال ہیں پیش
ڈر رہا ہے کہ خدا حکم سناتا کیا ہے

آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رسل
بندہ بے کس ہے شہا رحم میں وقفہ کیا ہے

اب کوئی دم میں گرفتار بلا ہوتا ہوں
آپ آجائیں تو کیا خو ف ہے کھٹکا کیا ہے

سن کے عرض مِری بحرِ کرم جوش میں آئے
یوں ملائک کو ہوا ارشاد ٹھرنا کیا ہے

کس کو تم موردِ آفات کِیا چاہتے ہو !
ہم بھی تو آکے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے

ان کی آواز پہ کر اٹھوں میں بے ساختہ شور
اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پَر وا کیا ہے

لوہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوار امم !
آگئی جاں تنِ بے جاں میں یہ آنا کیا ہے

پھر مجھے دامنِ اقدس میں چھپا لیں سرور
اور فرمائیں ہٹو اس پہ تقاضہ کیا ہے

بندہ آزاد شدہ ہے یہ ہمارے دَر کا
کیسا لیتے ہو حساب اس پہ تمہارا کیا ہے

چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم
حکم والا کی نہ تعمیل ہو زہرہ کیا ہے

یہ سماں دیکھ کے محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشمِ بد دور ہو کیا شان ہے رتبہ کیا ہے

صدقے اس رحم کے اس سایہ ٔ دامن پہ نثار
اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے

اے رضا جانِ عنادِل تِرے نغموں کے نثار
بلبلِ باغ ِ مدینہ تِرا کہنا کیا ہے