کچھ رہے یا نہ رہے مجھ بے اثر کے سامنے

کچھ رہے یا نہ رہے مجھ بے اثر کے سامنے
گمبد خضراء رہے میری نظر کے سامنے

گاہے بہ گاہے جو کفالت کر رہا ہے خود میری
اور کیا مانگوں بھلا اُس چارہ گر کے سامنے

دیکھی کچھ دنیا بھی ہم نے گھوم کر لیکن جناب
سب سفر بے کیف ہیں، طیبہ کے سفر کے سامنے

یا نبی ! ہم کو عطا کر اتنی شَہِی چند روز
ہم کہیں کہ گھر لیا ہے تیرے گھر کے سامنے

جو درود پاک پڑھ کر یا د کرتے ہیں انہیں
جاتی ہے ان کی خبر خیر البشر کے سامنے

مدعا عاؔبد خد ا نے اس کا پورا کر دیا
جو برستی آنکھ دیکھی ان کے در کے سامنے