میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم

میں گذرتا ہی گیا راہ تھی پرخم پرخم
مجھ پہ سرکار کی نظریں جو تھیں پیہم پیہم

ان کے دربار میں پہونچو کہ یہاں سے مانگو
شرط اتنی ہے کہ یہ آنکھ ہو پُرنم پُرنم

آپ آئے تو پڑی جان میں ٹھنڈک ورنہ
زندگی زخم تھی، آواز تھی مرہم مرہم

پیش کر دوں گا سرِ حشر کمائی اپنی
دولتِ نعت جمع کی ہے جو درہم درہم

عرش ہو فرش ہو محشر ہو ، زماں ہو کہ مکاں
ہر جگہ ان کے ہی لہراتے ہیں پرچم پرچم

مہرومہ ، کاہہکشاں ، نقشِ کفِ پائے رسول
گیسوئے شب ہے اسی نُور سے برہم برہم

ان کی رحمت کی تو ہر بوُند سمندر ہے ادیب
جس کے آگے یہ سمندر بھی ہے شبنم شبنم