میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب

میں مدینے میں ہوں اور ذکر پیمبر بھی نصیب
یعنی پیاسے کو ہے دریا در دریا بھی نصیب

خوشبوئے زلف بھی عکسِ رُخِ انور بھی نصیب
صبحِ کافور بھی ، اور شامِ معنبر بھی نصیب

رُخ پہ مَلنے کے لیے ، رُوح میں ڈھلنے کے لیے
گردِ کوچہ بھی نصیب ، بادِ معطّر بھی نصیب

مسندِ صُفّہ کے انوار وہ بابِ جبریل
اس گنہ گار کی آنکھوں کو وہ منظر بھی نصیب

میری آنکھوں میں حرم آنکھ سے باہر بھی حرم
خانۂ چشم کو آئینہ کا جوہر بھی نصیب

ان کی یادوں کو جہاں چین سے نیند آتی ہے
نام دل کے ہے اِک حجرۂ بے در بھی نصیب

ایک اِک لمحہ مرے لب کو مدینے میں ادیب
کلمۂ شُکر بھی اور نعتِ پیمبر بھی نصیب