مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی

مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی

مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی

جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا

تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا

بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے

حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی

شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا

بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی

جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی

بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا

عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا

وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں

عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن

یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے

جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے

وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی

طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی

جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں

وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے

وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں

نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر

سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا

سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے

سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی

سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے

تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں

بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا

شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا

سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا