نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم

نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے

قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک

چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں

زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز

جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں

بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف

کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے

زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے

قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں

کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر

سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں

میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت

ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں

یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف

زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں