پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے باز ووں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیردیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آپڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے نقشِ پا ئے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہر ا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یار ب نصیب ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم