شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے

شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے

کِس خاکِ پاک کی تو بنی خاک ِ پا شفا
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے

آبِ حیاتِ رُوح ہے زرقا کی بُوند بُوند
اکسیر اعظم مسِ دل خاک دَر کی ہے

ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے

لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضرت کی ہے

وہ دیکھو جگمگا تی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے

ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے !
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِی ْ
اُن پر درود جن سے نوید اِن بُشَر کی ہے

اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیے
اصلِ مُراد حاضری اس پاک در کی ہے

کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر ہے

کعبہ بھی ہے انہیں کی تجَلی کا یک ظِلّ
روشن انھیں کے عکس سے پتلی حجر کی ہے

ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منٰی
لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے

صدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروض ِ غرر کی ہے

ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پَردہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائِض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

شر خیر شور سور شرر دور نار نور!
بشرٰی کہ بارگاہ یہ خیر البشر کی ہے

مجرم بلائے آئے ہیں جَاؤ ک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

بد ہیں مگر انہیں کے ہیں باغی نہیں ہیں ہم
نجدی نہ آئے اس کو یہ منزل خطر کی ہے

تف نجدیت نہ کفر اسلام سب پہ حرف
کافر ادھر کی ہے نہ اُدھر کی ہے

حاکم حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مُراد کِس آیت خبر کی ہے

شکلِ بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو !
کیا قدر اُس خمیرۂ ماو مدر کی ہے

نورِ الٰہ کیا ہے محبّت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے

ذکرِ خدا جو اُن سے جُدا چاہو نجدیو!
واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے

بے اُن کے واسطہ کے خدا کچھ عطا کرے
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے

مقصود یہ ہیں آدم و نوح وخلیل سے
تخم ِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے

اُن کی نبوّت اُن کی اُبوّت ہے سب کو عام
امّ البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے

ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صَدا بوا لبشر کی ہے

پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جِلا نماز
یہ کہتی ہے اذا ن جو پچھلے پہر کی ہے

دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے

اُن پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے

اُن پر درود جن کو کَسِ بے کَساں کہیں
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے

جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ بارگاہ مالکِ جن و بشر کی ہے

شمس و قمر سَلام کو حاضر ہیں السّلام
خوبی انہیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے

سب بحر و بر سلام کو حاضِر ہیں السّلام
تملیک انہیں کے نام تو ہر بحر و بر کی ہے

سنگ وشجر سلام کو حاضر ہیں السّلام
کلمے سے ترزبان درخت و حجر کی ہے

عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ملجا یہ بارگاہ دُعا و اثر کی ہے

شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السّلام
راحت انھیں کے قدموں میں شوریدہ سر کی ہے

خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السّلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے

سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ جلوہ گاہ مالکِ ہر خشک وتر کی ہے

سب کرو فر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کرّو فر کی ہے

اہل ِ نظر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ گرد ہی تو سُرمہ سب اہلِ نظر کی ہے

آنسو بہا کہ یہ گئے کالے گنہ کے ڈھیر
ہاتھی ڈوباؤ جھیل یہاں چشم تر کی ہے

تیری قضا خلیفہ ٔ احکام ِ ذی الجلال
تیری رضا حلیف قضا و قدر کی ہے

یہ ساری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی
سَرد اس کی آب و تاب سے آتشِ سقر کی ہے

جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤ فٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

دامن کا واسطہ مجھے اُس دھوٗپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اِس دو پہر کی ہے

ماں دونوں بھائی بیٹے بھتیجے عزیز دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے

جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے

فضل خدا سے غیبِ شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے

کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولٰی کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے

اُ ن پر کتاب اتری بَیَا نًا لِّکلِّ شَیءٍ
تفصیل جس میں مَا عَبَر و مَا غَبَر کی ہے

آگے رہی عطا وہ بقدر طلب تو کیا
عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے

بے مانگے دینے والے کی نعمت میں غرق ہیں
مانگے سے جو ملے کسے فہم اس قدر کی ہے

احباب اس سے بڑ ھ کے تو شاید نہ پائیں عرض
نا کر وہ عرض عرض یہ طرزِ دگر کی ہے

دنداں کا نعت خواں ہوں پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مِرے آبِ گُہر کی ہے

دشتِ حرم میں رہنے دے صیّاد اگر تجھے
مٹی عزیز بلبُل ِ بے بال و پر کی ہے

یا رب رضا نہ احمد پار ینہ ہو کے جائے
یہ بارگاہ تیرے حبیبِ اَبَر کی ہے

توفیق دے کہ آگے نہ پیدا ہو خوئے بَد
تبدیل کر جو خصلتِ بد پیشتر کی ہے

آ کچھ سُنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّت ِ سوزِ جگر کی ہے