سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے

آنکھ سے کاجل صَاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے

یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مَت کیسی متوالی ہے

سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا ز ہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے

آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جَمائی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے

جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دِل دھڑکے
ڈر سمجھا ئے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے

بادل گرجے بجلی تڑپے دَھک سے کلیجا ہو جائے
بن میں گھٹا کی بَھیانک صوٗرت کیسی کا لی کالی ہے

پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اَوند ھے منھ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے

ساتھی سَاتھی کہہ کے پکاروں ساتِھی ہو تو جو اب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پَٹکوں چل رے مولٰی والی ہے

پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہار ے جی سے رفاقت پالی ہے

تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سُورج ہو
دیکو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے

دنیا کو تو کیا جانے یہ بس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے

شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اس مُردار پہ کیا للچا یا دنیا دیکھی بھالی ہے

وہ تو نہایت سَستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا
ہم مفلِس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے

مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اقبالی ہے