زہے مقدر! حضورِ حق سے، سلام آیا ، پیام آیا

زہے مقدر! حضورِ حق سے سلام آیا ، پیام آیا
جھکاؤ نظریں، بچھاؤ پلکیں ، اد ب کا اعلیٰ مقام آیا

یہ کون سر سےکفن لپیٹے چلا ہے الفت کے راستے پر ؟
فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا !

فضا میں لبیک کی صدائیں ، زَ فرش تا عرش گونجتی ہیں
ہر ایک قربان ہو رہا ہے ، زباں پہ یہ کس کا نام آیا !

یہ راہِ حق ہے ، سنبھل کے چلنا ، یہاں ہے منزل قدم قدم پر
پہنچا در پر تو کہنا آقا ، سلام لیجیے غلام آیا !

دعا جو نکلی تھی دل سے آخر پلٹ کے مقبول ہو کے آئی
وہ جذبہ جس میں تڑپ تھی سچی وہ جذبہ آخر کو کام آیا

یہ کہنا آقا بہت سے عاشق تڑپتے سے چھوڑآیا ہوں میں
بلاوے کے منتظر ہیں لیکن نہ صبح آیا نہ شام آیا

خدا ترا حافظ و نگہبان او راہِ بطحٰی کے جانے والے
نویدِ صد انبساط بن کر پیامِ دارالسلام آیا