ابھی نہ آتے تھے پشتِ زِیں تک کہ سَر ہوئی

ابھی نہ آتے تھے پشتِ زِیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شلّک
صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعِقے تھے
ہجومِ امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر اِنہیں ہٹاؤ
ادب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غَلغلے تھے
اُٹھی جو گرد رَہِ منور وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بَھرے تھے جَل تھل اُمنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کے رَہ گذر کی
اٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھنا مٹے تھے
بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبُن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہارہے تھے
qaseeda-e-me’raj part/5