الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مرکے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا

بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا

عکس کا دیکھ کے منہ اور بھپر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا

کو ہ سر مکھ ہو تو اِک دار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا

اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لرائی لیتے
یہ گھٹا ئیں ، اسے منظور بڑھا نا تیرا

وَرَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکۡ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تر ذِکر ہے اُونچا تیرا

مٹ گئے ٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

تو گھٹا ئے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا

سمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِ نکا ر
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا

میرے خنجر سے تجھے با ک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیر ا

ابنِ زہر ا سے ترے دل مین ہیں یہ زہر بھرے
بل بے او منکر ِ بے باک یہ زہر تیرا

بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا

شاخ پر بیٹھ کر جڑ کا ٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچانہ دکھائے تجھے شجرا تیرا

حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمّا تیرا

سگ ِ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے روبہِ دنیا تیرا

غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا

حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا

جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا

کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبّت کا خزینہ تیرا

دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا

نزع میں ، گور میں ، میزاں پہ ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ معلٰی تیرا

دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تیرا

بہجت اس سر کی ہے جو “بہجۃ الاسرار ” میں ہے
کہ فلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا

اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام ما منِ خود قبلۂ حاجا تیرا