سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تری مجرم کیا بات بنائی ہے
سب نے صف محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
یوں تو سب انھیں کا ہے پر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے
بازار عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکار کرم تجھ میں عیبی کی سمائی ہے
گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولیٰ
رو رو کے شفاعت کی تمہید اُٹھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اُٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالم کیا دھونی رَمائی ہے
مجرم کو نہ شرماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہو گا پردے میں بھلائی ہے
اب آپ ہی سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے
اے عشق تِرے صدقے جلنے سے چھٹے سستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
حرص و ہوس ِ بد سےدل تو ، بھی ستم کر لے
تو ہیں نہیں بے گانہ دنیا ہی پرائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے ہٹ فتنوں کے پرکالے
کیوں پھونک دوں اک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے
سوزِ دل چاہیے، چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر، آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے
ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں، لب کشائی کی جرات مناسب نہیں
ان کی سرکار میں التجا کے لئے،جنبشِ لب نہیں، چشمِ تر چاہیے
اپنی رو داد غم میں سناوؔں کسے، میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا؟
جس کی خاکِ قدم بھی ہے خاکِ شفا، میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے
رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں، اب میں آنکھوں کو اپنی کروں گا بھی کیا
اب نہ کچھ دیدنی ہے، نہ کچھ گفتنی، مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے
میں گدائے درِ شاہِ کونین ہوں، شیش محلوں کی مجھ کو تمنّا نہیں
ہو میسر زمیں پہ کہ زیرِ زمیں، مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے
ان نئے راستوں کی نئی روشنی، ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی
ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے، ہم کو آئیںِ خیر البشر چاہیے
گوشہ گوشہ مدینےکا پر نور ہے، سارا ماحول جلووؔں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے، دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے
مدحتِ شاہِ کون و مکاں کے لیے صرف لفظ وبیاں کا سہارا نہ لو
فنِ شعری ہے اقبال اپنی جگہ، نعت کہنےکو خونِ جگر چاہیے
سب سے اَعلیٰ عزت والے
غلبہ و قہر و طاقت والے
حرمت والے کرامت والے
تم پر لاکھوں سلام
ظاہر باہر سیادَت والے
غالب قاہر رِیاست والے
قوت والے شہادَت والے
تم پر لاکھوں سلام
نورِ علم و حکمت والے
نافذ جاری حکومت والے
رب کی اَعلیٰ خلافت والے
تم پر لاکھوں سلام
آپ کا چاہا رب کا چاہا
رب کا چاہا آپ کا چاہا
رب سے ایسی چاہت والے
تم پر لاکھوں سلام
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے دَر تمہارا چھوڑ کر
سر گزشت غم کہوں کس سے تِرے ہوتے ہوئے
کس کے در پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر
بے لقائے یار ان کو چین آ جاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر
کون کہتا ہے دلِ بے مُدَّعا ہے خوب چیز
میں تو کوڑی کو نہ لوں ان کی تمنا چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگر اس دَر سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر
کس تمنا پر جئیں یارب اَسیرانِ قفس
آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
خلد کیسا نفس سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں
بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رَستہ چھوڑ کر
ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
حشر میں ایک ایک کا مونھ تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مَدینہ چھوڑ کر
سر ہے خَم ہاتھ میرا اُٹھا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
فَضْل کی رَحْم کی التجا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
تیرا اِنْعام ہے یاالٰہی کیسا اِکْرام ہے یاالٰہی
ہاتھ میں دامنِ مصطفےٰ ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
عشق دے سوز دے چشمِ نم دے مجھ کو میٹھے مدینے کا غم دے
واسِطہ گنبدِ سبز کا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
ہوں بظاہر بڑا نیک صورت کربھی دے مجھ کو اب نیک سیرت
ظاہِر اچھا ہے باطِن بُرا ہے یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے
میرے مُرشِد جو غوثُ الْوَرا ہیں شاہ احمد رضا رہنما ہیں
یہ تِرا لُطف تیری عطا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
یاخدا ایسے اسباب پاؤں کاش مکے مدینے میں جاؤں
مجھ کو ارمان حج کا بڑا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
یاالٰہی کر ایسی عنایت دیدے ایمان پر استقامت
تجھ سے عطّاؔر کی التجا ہے یاخدا تجھ سے میری دعا ہے
Sar hay kham haath mayra utha hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Fazl ki rahm ki iltija hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Tayra in’aam hay Ya Ilahi, kaysa ikraam hay Ya Ilahi
Haath mayn daman-e-Mustafa hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
‘Ishq day, sauz day, chashm-e-nam day, mujh ko meethay Madinay ka gham day
Wasitah Gumbad-e-Sabz ka hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Hoon ba-zaahir bara nayk soorat, ker bhi day mujh ko ab nayk seerat
Zaahir achcha hay baatin bura hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Mayray murshid jo Ghaus-ul-Wara hayn, Shah Ahmad Raza rahnuma hayn
Yeh Tayra lutf Tayri ‘ata hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Ya Khuda aysay asbab paoon, kash Makkay Madinay mayn jaoon
Mujh ko arman Hajj ka bara hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
Ya Ilahi ker aysi ‘inayat, day day Iman per istiqamat]
Tujh say ‘Attar ki iltija hay, Ya Khuda Tujh say mayri Du’a hay
ان کا در چومنے کا صلہ مل گیا سر اٹھایا تو مجھ کو خدا مل گیا عاصیوں کو بڑا رتبہ مل گیا حشر میں دامن مصطفی مل گیا ان کھجوروں کے جھر مٹ میں کیا مل گیا باغ خلد بریں کا پتہ مل گیا خود تھپیڑوں نے آکر سہارا دیا کملی والے سا جب نا خدا مل گیا جس کو طیبہ کی ٹھندی ہوا مل گئی بس اسے زندگی کا مزہ مل گیا اٹھتے ہی پردہ میم معراج میں نور ہی نور کا سلسلہ مل گیا کچھ نہ پوچھو کہ میں کیسے بے کل ہوا مجھ کو کملی میں راز خدا مل گیا |
کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین وصحابہ پہ جب آ بنی گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے |
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنا ئی ہے
سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
یوں تو سب انہیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خا ص اُن کی کمائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے
بازار عملِ میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سَمائی ہے
گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولٰی
رو رو کے شفاعت کی تہمید اٹھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالمِ کیا دھونی رَمائی ہے
مجرم کو نہ شر ماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے
اب آپ ہی سنبھالیں توکام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے
اے ٔ عشق تِرے صدقے جلنے سے چُھٹے سَستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کر لے
تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پَرائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے ہَٹ فتنوں کے پر کالے
کیوں پھونک دوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے ۔
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صَاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مَت کیسی متوالی ہے
سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا ز ہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جَمائی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے
جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دِل دھڑکے
ڈر سمجھا ئے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
بادل گرجے بجلی تڑپے دَھک سے کلیجا ہو جائے
بن میں گھٹا کی بَھیانک صوٗرت کیسی کا لی کالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اَوند ھے منھ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
ساتھی سَاتھی کہہ کے پکاروں ساتِھی ہو تو جو اب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پَٹکوں چل رے مولٰی والی ہے
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہار ے جی سے رفاقت پالی ہے
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سُورج ہو
دیکو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
دنیا کو تو کیا جانے یہ بس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اس مُردار پہ کیا للچا یا دنیا دیکھی بھالی ہے
وہ تو نہایت سَستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا
ہم مفلِس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اقبالی ہے
سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
صدقے میں ترے باغ تو کیا لائے ہیں بن پھول
اِس غنچۂ دل کو بھی تو ایما ہو کہ بن پھول
تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہِلتا
تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ محن پھول
واللہ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عِطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
دِل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبُو نہ لطافت
کیوں غنچہ کہوں ہے مِرے آقا کا دہن پھول
شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دِمِ صبح
شوخانِ بہاری کے جڑوا ؤہیں کرن پھول
دندان ولب و زلف و رُخ ِ شہ کے فدائی
ہیں درِّ عدن لعلِ یمن مشکِ ختن پھول
بو ہو کے نہاں ہو گئے تابِ رُخِ شہ میں
لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کا دہن پھول
ہوں بازِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں
لِلّٰہ مری نعش کر اے جان ِ چمن پھول
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پاکا
اتنا بھی مہِ نوپہ نہ اے چرخ ِ کہن پھول
دل کھول کے خوں رولے غمِ عارض ِ شہ میں
نکلے تو کہیں حسرت ِ خوں نابہ شدن پھول
کیا غازہ مَلا گردِ مدینہ کا جو ہے آج
نِکھرے ہوئے جو بن میں قیامت کی پھبن پھول
گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر
بلبل کو بھی اے ساقی صہبا ولبن پھول
ہے کون کہ گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے
بیکس کے اٹھائے تری رحمت کے بھرن پھول
دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے
سُورج تِرے خرمن کو بنے تیری کرن پھول
کیا بات رضا اس چمنستان ِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسیں اور حسن پھول
سلامٌ علیک اے حبیبِ خدا
سلامٌ علیک اے حقیقت نما
سلامٌ علیک اے مددگارِ دیں
سلامٌ علیک اے شہِ انبیا
سلامٌ علیک اے شفائے خلیل
سلامٌ علیک اے شہِ دوسرا
سلامٌ علیک اے حسین و جمیل
سلامٌ علیک اے مہِ اصفیا
سلامٌ علیک اے معینِ خلیل
سلامٌ علیک اے کرم آشنا
بروزِ جزا عاصیوں کے لیے
نہیں کوئی حامی تمہارے سوا
ہیں مشتاق مدت سے دیدار کے
دکھا دو ہمیں چہرۂ پُر ضیا
برا ہے جدائی میں احمد کا حال
دل و جاں سے وہ آپ پر ہے فدا
سب سے اعلیٰ عزّت والے
غلبہ و قہر و طاقت والے
خدمت والے کرامت والے
تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
رب کے پیارے راج دلارے
ہم ہیں تمہارے تم ہو ہمارے
اۓ دامانِ رحمت والے
تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
عرشِ عُلیٰ پر رب نے بُلایا
اپنا جلوۂ خاص دکھایا
خلوت والے جلوت والے
تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
آپ کا خادم ہے فرش کی نزہت
اور قدم ہے عرش کی زینت
حسن و جمال ولطافت والے
تم پہ لاکھوں سَلام
تم پہ لاکھوں سلام
خواب میں اپنا جلوہ دکھاؤ
نوری کو تم نوری بناؤ
اۓ چمکیلی رنگت والے
تم پہ لاکھوں سلام
تم پہ لاکھوں سلام
سب سے اعلیٰ عزّت والے غلبہ و قہر و طاقت والے
خدمت والے کرامت والے تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
رب کے پیارے راج دلارے ہم ہیں تمہارے تم ہو ہمارے
اۓ دامانِ رحمت والے تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
عرشِ عُلیٰ پر رب نے بُلایا اپنا جلوۂ خاص دکھایا
خلوت والے جلوت والے تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
آپ کا خادم ہے فرش کی نزہت اور قدم ہے عرش کی زینت
حسن و جمال ولطافت والے تم پہ لاکھوں سَلام
تم پہ لاکھوں سلام
خواب میں اپنا جلوہ دکھاؤ نوری کو تم نوری بناؤ
اۓ چمکیلی رنگت والے تم پہ لاکھوں سلام
تم پہ لاکھوں سلام
سرکار غوثِ اعظم نظرِ کرم خدارا
میرا خالی کاسہ بھردو میں فقیر ہوں تمہارا
جھولی کو میری بھردو ورنہ کہے گی دنیا
ایسے سخی کا منگتا پھرتا ہے مارا مارا
مولا علیؓ کا صدقہ گنج شکر کا صدقہ
میری لاج رکھ لو یا غوث اعظم میں فقیر ہوں تمہارا
سب کا کوئی نہ کوئی دنیا میں آسرا ہے
میرا بجز تمہارا کوئی نہیں سہارا
دامن پسارے درپہ لاکھوں ولی کھڑے ہیں
ہوتا ہے تیرے در سے کونین کا گزارا
یہ تیرا کرم مجھ پر کہ بلا لیا ہے در پر
کہاں روسیاہ فریدی کہاں آستاں تمہارا
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے اولیٰ و اعلیٰ بالا و والا ہمارا نبی
اپنے مولا کا پیا را ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولاٰ ہمارا نبی
بزم ِ آخر کا شمع فروزاں ہوا
نورِ اوّل کا جلوہ ہمارا نبی
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی
جن کے تلوؤں کا دھون ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی
خلق سے اولیا ء اولیاء سے رُسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی
جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی
اِن کا اُن کا تمہارا ہمارا نبی
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچّا ہمارا نبی
کیا خبر کتنے تارے کھلے چُھپ گئے
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی
سارے اُونچوں میں اُونچا سمجھےم جسے
ہے اُس اونچے سے اونچا ہمارا نبی
غم زدوں کو رضا مژدہ دیجے کہ ہے
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی صلّی الہا عہپہ وآلہٖ وسم
سانوں اپنے کول بُلا لے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹادے مدینے والڑیا
دم دم یاد تیری دل وچ رہندی اے
روندیں اے نیں اکھیاں تے نیند نہ پیندی اے
سانوں سبز گنبد وکھلا دے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
صدقہ شہیداں دا دور ہو ویں دوریاں
سدلو جی کول مُک جاویں مجبوریاں
ساڈے سُےّو نصیب جگادے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
کالی کالی زلف تے انکھ مستانی اے
رب دی سوں دنیا ای سوہنے دی دیوانی اے
اِک نوری جھلک وکھلا دے مدینے والڑیا
ساڈے دل دا روگ مٹا دے مدینے والڑیا
سانوں اپنے کول بلالے مدینے والڑیا
سارے جگ نالوں لگدیاں چنگیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
رہیا مہک جیویں جنت دیاں گلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
اوہناں گلیاں توں تن من وار یے کر یے سجدے تے شکر گزاریے
اے تے نور دیاں سُچیا ئیں ٹھلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
ابر رحمتاں دا سدا ایتھے وسدے جاندے روتے تے آؤندے نیں ہنس دے
جاندے رل دیکھنے نوں سیاں نے چلیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
اونہاں گلیاں نوں جیہڑ ے ویکھن آؤندے اوتے جنتّاں نوں بُوہے کھل جاؤندے
تَر گئے اوجِنہاں نے تک لیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
پاوے ایناں گلیاں دا دیدار جو ہو جاوے رحمتاں دا حق دار او
تَر گئے اوجِنہاں نے تک لیاں مدینے دیاں پاک گلیاں
سائے میں تمہارے ہےقسمت یہ ہماری ہے
قربانِ دل و جانم کیا شان تمہاری ہے
کیا پیش کروں تم کو کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
نقشہ تِرا دلکش ہے صورت تِری پیاری ہے
جس نے تمہیں دیکھا ہے سو جان سے واری ہے
گو لا کھ برے ہم کہلاتے تمہارے ہیں
اِک نظر ِکرم کرنا یہ عرض ہماری ہے
ہم چھوڑ کے اِس در کو جائیں تو کہاں جائیں ؟
اِک نام تمہارا ہے !جو ہونٹوں پہ جاری ہے
تاؔجی تِرے سجدے سے زاہد کو جلن کیوں ہے ؟
قدرت نے جبیں سائی قسمت میں اتاری ہے !
سلطانِ مدینہ سے جسے پیار نہ ہوگا
مَحشر میں شفاعت کا وہ حقدار نہ ہوگا
مشکل میں جو نہ یاد کرے اپنے نبی کو
منجدھار میں ڈوبے گا کبھی پار نہ ہوگا
دنیا بھی سنور جائے گی جنت بھی ملے گی
محفل میں تِرا بیٹھنا بے کار نہ ہوگا
بدلے ہیں حضور! آپ نے دنیا کے مقدر
کیا مجھ پہ کرم سیّدِ ابرار نہ ہو گا !
دیکھا ہے بس اِک بار حضور !آپ کا جلوۂ
کیا ایسا کرم پھر کبھی سرکار نہ ہوگا !
حسنین (رضی اللہ عنہما) کے نانا پر جو تنقید کرے
وہ اور کوئی ہوگا مِرا یار نہ ہو گا