ایمان ہے قال مصطفائی ﷺ
قرآن ہے حال مصطفائیﷺ
اللہ کی سلطنت کا دولہا
نقش تمثال مصطفائیﷺ
کل سے بالا رسل سے اعلی
اجلال و جلال مصطفائیﷺ
ادبار سے تو مجھے بچا لے
پیارے اقبال مصطفائیﷺ
مرسل مشتاق حق ہیں اور حق
مشتاق وصال مصطفائیﷺ
خواہان وصال کبریا ہے
جویان جمال مصطفائیﷺ
محبوب و محب کی ملک ہے اک
کونین ہیں مال مصطفائیﷺ
اللہ نہ چھوٹے دست دل سے
دامان خیال مصطفائیﷺ
ہیں تیرے سپرد سب امیدیں
اے جودو نوال مصطفائیﷺ
روشن کر قبر بیکسوں کی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
اندھیر ہے بے تیرے میرا گھر
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
مجھ کو شب غم ڈرا رہی ہے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
آنکھوں میں چمک کے دل میں آجا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
مری شب تار دن بنا دے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
چمکا دے نصیب بد نصیباں
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
قزاق ہیں سر پہ راہ گم ہے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
چھایا آنکھوں تلے اندھیرا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
دل سرد ہے اپنی لو لگا دے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
گھنگور گھٹائیں غم کی چھائیں
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
بھٹکا ہوں تو راستہ بتا جا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
فریاد دباتی ہے سیاہی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
میرے دل مردہ کو جلا دے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
آنکھیں تیری راہ تک رہی ہیں
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
دکھ میں ہیں اندھیری رات والے
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
تاریک ہے رات غمزدوں کی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
تاریکی گور سے بچانا مجھ کو
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
پُر نور ہے تجھ سے بزم عالم
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
ہم تیرہ دلوں پہ بھی کرم کر
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
للہ ادھر بھی کوئی پھیرا
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
تقدیر چمک اُٹھے رضا کی
اے شمع جمال مصطفائیﷺ
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل دیےہیں کوچے بسا دیئے ہیں
جب آگئی ہیں جوش رحمت پہ ان کی آنکھیں
جلتے بجھا دئے ہیں روتے ہنسا دیئے ہیں
ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں دربے بہا دیئے ہیں
اسر ا میں گذرے جس دم بیڑے میں قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیئے ہیں
ملک سخن کی شاہی تجھ کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے سروَرِ عالی مقام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے رہبر جملہ اَنام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے مظہر ذات السلام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے پیکر حسن تمام
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام
اے نبیوں کے نبی اور اے رسولوں کے اِمام
یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ اَنْتَ مَھْبِطُ الْوَحْیِ الْمُبِیْں
اِنِّیْ مُذْنِب سَیِّدیْ اَنْتَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْں
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْتَ صَادِقُ الْوَعْدِ الْاَمِیْں
یَا نَبِیَّ اللّٰہِ اَنْتَ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْں
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام
اے نبیوں کے نبی اور اے رسولوں کے اِمام
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
یوسف کو ترا طالب دیدار بنایا
طلعت سے زمانہ کو پراَنوار بنایا
نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا
دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے
آئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا
وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھے
اس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا
اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع
تو نے ہی اِسے مطلعِ اَنوار بنایا
کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر
کونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
اللّٰہ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمت
عاصی کا تمہیں حامی و غمخوار بنایا
آئینۂ ذات احدی آپ ہی ٹھہرے
وہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا
اَنوارِ تجلی سے وہ کچھ حیرتیں چھائیں
سب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا
عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاری
سرکار بنایا تمہیں سرکار بنایا
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ کہ سب جنّتیں ہیں نثارِ مدینہ مبارک رہے عَنْدَلِیبو تمہیں گُل ہمِیں گُل سے بہتر ہیں خارِ مدینہ مَلائِک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ دو عالَم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا ہمیں اِک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ بنا آسماں منزلِ اِبنِ مریم گئے لامَکاں تاجدارِ مدینہ شَرَف جن سے حاصل ہوا انبیا کو وہی ہیں حسنؔ اِفتخارِ مدینہ |
آج مے خانے میں نیت میری بھر جانے دے
بادۂ ناب کے ساقی مجھے پیمانے دے
کس کو معلوم کہ کل کون رہے گا زندہ
آج رندوں کو ذرا پی کے بہک جانے دے
دیکھ اے دل نہ آنچ آئے وفا پر کوئی
جو بھی آتی ہے مصیبت میرے سر آنے دے
تجھ سے بھی دست و گریباں کبھی ہو گا واعظ
وحشیٔ عشق کو رنگ اور ذرا لانے دے
اے مرے دست جنوں بڑھ کے الٹ دے پردہ
حسن شرمانے پہ مائل ہے تو شرمانے دے
اک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی
مے پلاتا ہے تو ایسے کئی پیمانے دے
عشق ہے عشق نصیرؔ ان سے شکایت کیسی
وہ جو تڑپانے پہ آمادہ ہیں تڑپانے دے
الٰہی ! میں ہوں بس خطاوار تیرا مجھے بخش ! دے نام غفار تیرا مرض لادوا کی دوا کس سے چاہوں تو شافی ہے میرا ، میں بیمار تیرا کہاں جائے ، جب کہ نہ ہو کوئی تجھ بِن کسے ڈھونڈے ، جو ہو طلب گار تیرا خبر لیجیو ! میری اِس دم الٰہی کُھلے جب کہ بخشش کا بازار تیرا نہ ڈر دشمنوں سے رہا مجھ کو جب سے کہا تو نے میں ہو مدد گار تیرا الٰہی ! رہے وقت مرنے کے جاری بہ تصدیقِ دل لب پہ اقرار تیرا نہیں دونوں عالم سے کچھ مجھ کو مطلب تو مطلوب ، میں ہوں طلب گار تیرا نہ ڈر فوجِ عصیاں سے ، گرچہ بہت ہے کہ ہے رحم حق کا مدد گار تیرا |
اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے ۔
جو رب دو عالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے سبطین کا نانا ہے
اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے
آو در زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے
ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے
یہ کہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت
میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے
قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اَس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا
بخشش کی روائت میں توبہ تو بہانہ ہے
ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصور میں
اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے
آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا
ان پر تو گنہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر بھی وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا
منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گنہگار بہت ہوں
میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا
اے جوش جنوں پاس ادب بزم ہے جن کی
اس بزم میں تشریف وہ لائیں تو عجب کیا
دیدار کے قابل تو نہیں چشم تمنا
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا
پابند نوا تو نہیں فریاد کی رسمیں
آنسو یہ مرا حال سنائیں تو عجب کیا
نہ زاد سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں
پھر بھی مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا
حاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے
ٹھوکر سے وہ مردوں کو جلائیں تو عجب کیا
وہ حسن دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کھل آئیں تو عجب کیا
اَلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سَازیم محفلہا
بلا بارید حبِّ شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عِشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفامی کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا
توہّب گا ہ ملکِ ہند اقامَت رانمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بربند ید محملہا
صلائے مجلسم دَر گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بربندید محملہا
مگر واں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِراہ و رسم منزلہا
در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰی مَا تَلْق مَن قَھْوٰی دَعِ الدُّنْیا وَاَمْھِلْھا
ولم قربانت اے دودِ چراغ محفل مولد
زتاب ِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسا رانِ سَاحلہا
رضا مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اَ َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
آتے رہے انبیا کَما قِیْلَ لَھُمْ
وَالْخَاتَمُ حَقُّکُم ْ کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخرم میں ہوئی مہر کہ اَکْملْتُ لَکُمْ
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
نہ ہو مایوس آتی ہے صَدا گورِ غریباں سے
بنی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دودن کی اجالی ہے
ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی سر پر
کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے
اندھیرا گھر اکیلی جان دَم گھٹتا دل اُکتا تا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
زمین تپتی کٹیلی راہ بَھاری بوجھ گھائل پاؤں
مصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے
نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی
ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
رضان منزل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا سبھی کو ہے
تم اس کو روتے ہو یہ کہو یاں ہاتھ خالی ہے
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بوٗ سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشق ِ چشم والا
کباب ِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
انہیں کی بوٗ مایۂ سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انہیں سے گلشن مہک رہے ہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا !
حیات جاں کا رکاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشان عرش اعلٰے
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے ناز ک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوۂ مُبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یارو!
بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکِل جواب میں ہے
خدا ئے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچا لو آکر شفیع محشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلِسو ! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرّہ بس اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قد ر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے جانے والے نہیں آنے والے
کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہے ارے اوچھاؤنی چھانے والے
ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے
ارے بد فال بری ہوتی ہے دیس کا جنگلا سنانے والے
سن لیں اعدا میں بگڑنے کا نہیں وہ سلامت ہیں بنانے والے
آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام او درِ یار کے جانے والے
پھر نہ کروٹ لی مدینہ کی طرف ارے چل جھوٹے بہانے والے
نفس میں خاک ہوا تو نہ مٹا ہے مری جان کے کھانے والے
جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو! طیبہ سے خُلد میں آنے والے
نیم جلوے میں دو عَالم گلزار واہ وا رنگ جمانے والے
حسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا کہتے ہیں اگلے زمانے والے
وہی دھوم ان کی ہے ماشآء اللہ مِٹ گئے آپ مٹانے والے
لبِ سیراب کا صَدقہ پانی اے لگی دل کی بُجھانے والے
ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے
ہو گیا دَھک سے کلیجا میرا ہائے رخصت کی سنانے والے
خلق تو کیا کہ ہیں خالِق کو عزیز کچھ عجب بھاتے ہیں بھانے والے
کشتۂ دشتِ حرم جنّت کی کھڑکیاں اپنے سِرہانے والے
کیوں رضا آج گلی سونی ہے
اٹھ مِرے دھوم مچانے والے
اللہ اللہ کے نبی سے فریاد ہے نفس کی بدی سے
دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے
شب بھر سونے ہی سے غرضی تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے
ایمان پہ مؤت بہتر او نفس تیری ناپاک زندگی سے
او شہد نمائے زہر دَر جام گم جاؤں کدھر تِری بدی سے
گہرے پیارے پرانے دِل سوز گزرا میں تیری دوستی سے
تجھ سے جو اٹھائے میں صدمے ایسے نہ ملے کبھی کِسی سے
اُف رہے خود کام بے مروّت پڑتا ہے کام آدمی سے
تونے ہی کیا خدا سے نادم تو نے ہی کیا خجل نبی سے
کیسے آقا کا حکم ٹالا ہم مر مٹے تیری خود سری سے
آتی نہ تھی جب بدی بھی تجھ کو ہم جانتے ہیں تجھے جبھی سے
حد کے ظالم سِتم کے کٹّر پتھر شرمائیں تیرے جی سے
ہم خاک میں مل چکے ہیں کب کے نکلا نہ غبار تیرے جی سے
ہے ظالمِ میں نبا ہوں تجھ سے اللہ بچائے اس گھڑی سے
جو تم کو نہ جانتا ہوں حضرت چالیں چلیے اس اجنبی
اللہ کے سامنے وہ گن تھے یاروں میں کیسے متقی سے
رہزن نے لوٗٹ لی کمائی فریاد ہے خضر ہاشمی سے
اللہ کنوئیں میں خود گِرا ہوں اپنی نالِش کروں تجھی سے
ہیں پشت پنا ہ غوثِ اعظم
کیوں ڈرتے ہو تم رضا کسی سے
اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں جاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں
اِن فتنہ ہائے حشر سے کہدو حذر کریں نازوں کے پالے آتے ہیں رہ سے گزر کریں
بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کے ٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رخ کدھر کریں
سرکار ہم کمینوں کے اطوار پر نہ جائیں آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں
ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیے آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں
جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہے مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں
منزل کڑی ہے شان تبسّم کرم ہے تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں
کلکِ رضا ہے خنجر خوانخوار برق بار اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
اے شافع ِ امم شہِ ذی جاہ لے خبر
لِلّٰہ لے خبر مری لِلّٰہ لے خبر
دریا کا جوش، ناؤ نہ بیڑا نہ ناخدا
میں ڈوبا، تُو کہاں ہے مرے شاہ لے خبر
منزل کڑی ہے رات اندھیری میں نابلد
اے خضر لے خبر مری اے ماہ لے خبر
پہنچے پہنچنے والے تو منزل مگر شہا
ان کی جو تھک کے بیٹھے سرِ راہ لے خبر
جنگل درندوں کا ہے میں بے یار شب قریب
گھیرے ہیں چار سمت سے بدخواہ لے خبر
منزل نئی عزیر جُدا لوگ ناشناس
ٹوٹا ہے کوہِ غم میں پرِ کاہ لے خبر
وہ سختیاں سوال کی وہ صورتیں مہیب
اے غمزدوں کے حال سے آگا ہ لے خبر
مجر م کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل ِ عمل کو ان کے عمل کا م آئیں گے
میرا ہے کون تیرے سِوا آہ لے خبر
پُر خار راہ برہنہ پاتِشنہ آب دور
مَولٰی پڑی ہے آفتِ جانکاہ لے خبر
باہر زبانیں پیاس سے ہیں آفتاب گرم
کوثر کے شاہ کثّر اللہ لے خبر
ما نا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندۂ درگاہ لے خبر
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مرکے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے جو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بھپر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کو ہ سر مکھ ہو تو اِک دار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لرائی لیتے
یہ گھٹا ئیں ، اسے منظور بڑھا نا تیرا
وَرَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکۡ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تر ذِکر ہے اُونچا تیرا
مٹ گئے ٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹا ئے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سمِّ قاتل ہے خدا کی قسم اُن کا اِ نکا ر
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے خنجر سے تجھے با ک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیر ا
ابنِ زہر ا سے ترے دل مین ہیں یہ زہر بھرے
بل بے او منکر ِ بے باک یہ زہر تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کا ٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچانہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمّا تیرا
سگ ِ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے روبہِ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبّت کا خزینہ تیرا
دِل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں ، گور میں ، میزاں پہ ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ معلٰی تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو “بہجۃ الاسرار ” میں ہے
کہ فلک وار مُریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام ما منِ خود قبلۂ حاجا تیرا
آیا نہ ہوگا اس طرح رنگ و شباب ریت پر
گُلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گُلاب ریت پر
جانِ بتول کے سِوا کوئی نہیں کھِلا سکا
قطرہ ٔ آب کے بغیر اتنے گُلاب ریت پر
ترے حُسین آب کو میں جو کہوں تو بے ادب
لمسِ لبِ حُسین کو تَرسا ہے آب ریت پر
عشق میں کیا لُٹایئے عشق میں کیا بچا ئیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
لذّت سوزش ِ بلال، شوقِ شہادتِ حُسین
جس نے لیا یونہی لیا اپنا خطاب ریت پر
جتنے سوال عشق نے آل ِ رسول سے کیے
ایک سے بڑھ کے اِک دیا سب نے جواب ریت پر
آل ِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر
آئی تو کاٹنے کے لیے سب کے پاس مرگ
رشتہ جو آدمی کے بدن سے ہے جان کا
اس طرح سے کسی کی تواضع نہیں ہوئی
خونِ شہید کے لیے دامن قرآن کا
اُدھر ترتیلِ قرآنی ، کوئی ترمیم ناممکن
جو آیت حکم جو لائی ، عمل ایسا ہی کرنا ہے
اِدھر ترتیب ِ عثمانی کہ جو سورۃ جہاں رکھ دی
قیامت تک اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا ہے
تو نے بھی عجب شان دکھائی ہے خدایا
جب تیغ نے خوں، حضرت ِ عثمان بہایا
گرنے نہ دیا قطرۂ خون پہلے زمیں پر
رحمت نے تیری دامنِ قرآن بچھایا
از آدم تا محمد مصطفٰے کوئی نہیں ایسا
کہ جن کے عقد میں دو بیٹیاں ہوں اک پیمبر کی
حیاء کی ، مصطفٰے کی دوستی کی ، یا مقدر کی
وہ ایک منظر وَمَا رَ مَیْتَ جہاں خدا خود یہ کہہ رہا ہے
یہ دست دست ِ نبی نہیں ہے یہ دستِ قدرت فقط مِرا ہے
یہ ایک منظر ، شجر کے نیچے نبی کا بیعت کے وقت کہنا
یہ دست ِ بیعت نبی کا ہے اور یہ دستِ عثمان دوسرا ہے
بچوں کو لوریوں میں کہیں ماں قریش کی
سو جاؤ میرے لال کہ ماں غمگسار ہے
ہے تم سے اتنا پیار ، کہ رحمٰن کی قسم
جیتنا قبیلے والوںکو عثمان سے پیار ہے