تو امیر حرم میں فقیر عجم
تیرے گن اور یہ لب میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا

تو ہے احرام انور باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے
کعبہ عشق تو میں تیرے چار سو
تو اثر میں دعا تو کجا من کجا

میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے میرا
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے میرا
کاسۂ ذات ہوں تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا تو کجا من کجا

تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر ہے میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تری رہ گزر
سدرۃ المنتہیٰ تو کجا من کجا

ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
میری خوش قسمتی میں تیرا امتی
تو جزا میں رضا تو کجا من کجا

دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں میری ہے ترجماں
دل سے نکلے سدا تو کجا من کجا

Poet :Muzaffar Warsi

No comments yet

تصور سے بھی آگے تک درو دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کُھل جائیں

میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں

جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کردے
مرے اندر کے غاروں پر ترے انوار کُھل جائیں

اتاروں معرفت کی ناؤ جب تیرے سمندر میں
تو مجھ پر باد بانوں کی طرح منجدھار کُھل جائیں

اندھیروں میں بھی تو اتنا نظر آنے لگے مجھ کو
کہ سناٹے بھی مانندِ لبِ اظہار کُھل جائیں

مرے مالک مرے حرفِ دعا کی لاج رکھ لینا
ملے تو بہ کو رستہ ، بابِ استغفار کُھل جائيں

مظفر وارثی کی اس قدر تجھ تک رسائی ہو
کہ اس کے ذہن پر سب معنیء افکار کُھل جائیں

Poet :Muzaffar Warsi

No comments yet

تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا
ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہوگا
 
گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہوگا
کیا بغیر کیا بے کیا کیا ہوگا
 
خدا کا لطف ہوا ہوگا دست گیر ضرور
جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہوگا
 
دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی
کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہوگا
 
خدائے پاک کی چاہیں گے اَگلے پچھلے خوشی
خدائے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہوگا
 
کسی کے پاؤں کی بیڑی یہ کاٹتے ہونگے
کوئی اَسیر غم ان کو پکارتا ہوگا
 
کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ
نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہوگا
 
کسی کے پلہ پہ یہ ہوں گے وقت وَزنِ عمل
کوئی اُمید سے مونھ ان کا تک رہا ہوگا
 
کوئی   کہے   گا   دُہائی   ہے    یَا رَسُوْلَ  اللّٰہ
تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہوگا
 
کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے جحیم
وہ اُن کا راستہ پھر پھر کے دیکھتا ہوگا

No comments yet

تيرے ہوتے جنم ليا ہوتا

کوئی مُجھ سا ، نہ دُوسرا ہوتا

سانس لیتا توں، اور میں جی اُٹھتا

کاش مکّہ کی میں فضا ہوتا

ہِجرتوں ميں پڑاؤ ہوتا ميں

اور تُو کُچھ دير کو رُکا ہوتا

تيرے حُجرے کے آس پاس کہيں

ميں کوئی کچاراستہ ہوتا

بيچ طائف بوقتِ سنگ زنی

تيرے لب پر سجی دُعا ہوتا

کِسی غزوہ ميں زخمی ہو کر ميں

تيرے قدموں پہ جاگِرا ہوتا

کاش اُحد ميں شريک ہو سکتا

اور باقی نا پِھر بچا ہوتا

تیری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا

کہ تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا

چوب ہوتا میں تیری چوکھٹ کی

یا تیرے ہاتھ کا عصا ہوتا

تيری پاکيزہ زِ ندگی کا ميں

کوئی گُمنام واقِعہ ہوتا

لفظ ہوتا میں کسی آیت کا

جو تیرے ہونٹ سے ادا ہوتا

ميں کوئی جنگجُو عرب ہوتا

جو تيرے سامنے جُھکا ہوتا

ميں بھی ہوتا تيرا غُلام کوئی

لاکھ کہتا ، نہ ميں رِہا ہوتا

سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا

جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا

چاند ہوتا تیرے زمانے کا

پھر تیرے حکم سے بٹا ہوتا

پانی ہوتا اُداس چشموں کا

تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا

پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں

اور تیرے ہاتھ سے لگا ہوتا

تیری صحبت مجھے ملی ہوتی

میں بھی تب کتنا خوش نما ہوتا

مجھ پر پڑتی جو تیری نظر کرم

آدمی کیا، میں معجزہ ہوتا

ٹکڑا ہوتا ، میں ایک بادل کا

اور تیرے ساتھ گھومتا ہوتا

آسماں ہوتا، عُہد نبوی کا

تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا

خاک ہوتا ميں تيری گليوں کی

اور تيرے پاؤں چُومتا ہوتا

پيڑہوتا کھجُور کا ميں کوئی

جِس کا پھل تُو نے کھا ليا ہوتا

بچّہ ہوتا اِک غريب بيوہ کا

سر تيری گود ميں چُھپا ہوتا

رستہ ہوتا تيرے گُزرنے کا

اور تيرا رستہ ديکھتا ہوتا

بُت ہی ہوتا ميں خانہ کعبہ کا

جو تيرے ہاتھ سے فنا ہوتا

مُجھ کو خالق بناتا غار ،حسن

اور ميرا نام بھی حِرا ہوتا

No comments yet

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

پھر کبھی تو تجھے ملا ہوتا

کاش میں سنگِ در تیرا ہوتا

تیرے قدموں کو چوُمتا ہوتا

تو چلا کرتا میری پلکوں پر

کاش میں تیرا راستہ ہوتا

ذَرّہ ہوتا میں تیری راہوں کا

تیرے تلووؔں کو چھو لیا ہوتا

تیرے مسکن کے گرد شام وسحر

بن کے منگتا میں پھر رہا ہوتا

تو کبھی تو میری خبر لیتا

تیرے کوچے میں گھر لیا ہوتا

تو جو آتا میرے جنازے پر

تیرے ہوتے میں مر گیا ہوتا

چھوڑ کر جنتیں پلٹ آتا

تو میری قبر پر کھڑا ہوتا

لڑتا پھرتا تیرے اعداء سے

تیری خاطر مر گیا ہوتا

ہوتا طاہر تیرے فقیروں میں

تیری دہلیز پر کھڑا ہوتا

No comments yet

تِرا ذرّہ مہِ کامل ہے یا غوث تِرا قطرہ یم سَائل ہے یا غوث
کوئی سَالک ہے یا واصل ہے یا غوث وہ کچھ بھی ہو ترا سَائل ہے یا غوث
قدِ بے سایہ ظلِ کبریا ہے تو اس بے سایہ ظل کا ظل ہے یا غوث
تری جاگیر میں ہے شرق تا غرب قلمرو میں حرم تاحل ہے یا غوث
دل عِشق و رُخ حسن آئینہ ہیں اور ان دونوں میں تیرا ظلل ہے یا غوث
تِری شمع دِل آرا کی تب و تاب گل وبلبل کی آب و گل ہے یا غوث
تِرا مجنو ں تِرا صحرا تِرا نجد تِری لیلی تِرا محمل ہے یا غوث
یہ تیری چمپئی رنگت حسینی حسن کے چاند صبحِ دل ہے یا غوث
گلستاں زار تیری پنکھڑی ہے کلی سو خلد کا حاصل ہے یا غوث
اگال اس کا ادھار ابرا ر کا ہو جسے تیرا اُلش حاصل ہے یا غوث
اشارہ میں کیا جس نے قمر چاک تو اس مَہ کا مہِ کامل ہے یا غوث
جِسے عرشِ دوم کہتے ہیں افلاک وہ تیری کرسیِ منزل ہے یا غوث
تو اپنے وقت کا صدّیق ِ اکبر غنی وحیدر و عادل ہے یا غوث
ولی کیا مَرسل آئیں خود حضور آئیں وہ تیری وعظ کی محفل ہے یا غوث
جسے مانگے نہ پائیں جاہ والے وہ بن مانگے تجھے حاصل ہے یا غوث
فیوضِ عالم اُمّی سے تجھ پر عیاں ماضی و مستقبل ہے یا غوث
جو قرنوں سیَر میں عارف نہ پائیں وہ تیری پہلی ہی منزل ہے یا غوث
ملک مشغول ہیں اُس کی ثنا میں جو تیرا ذاکر و شاغل ہے یا غوث
نہ کیوں ہو تیری منزل عرش ثانی کہ عرشِ حق تِری منزل ہے یا غوث
وہیں سے اُبلے ہیں سَاتوں سمندر جو تیری نہر کا ساحل ہے یاغوث
ملائک کے بشر کے جن کے حلقے تری ضَو ماہ ہر منزل ہے یا غوث
بخارا و عراق و چشت و اجمیر تری لَو شمع ہر محفل ہے یا غوث
جو تیرا نام لے ذاکر ہے پیارے تصوّر جو کرے شاغل ہے یا غوث
جو سر دے کر ترا سود ا خریدے خدا دے عقل وہ عاقل ہے یا غوث
کہا تو نے کہ جو مانگو ملے گا
رضا تجھ سے ترا سائل ہے یا غوث

No comments yet

تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک
تمہارے فعل کی ناقِص مثل ضیا ئے فلک

اگر چہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں
مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک

سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدا ئے بلندی تھی انتہائے فلک

یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُنکی روِش
کہ نقشِ پاہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک

تمہاری یاد میں گزر ی تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک

نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نِکلی صَدائے پائے فلک

یہ اُن کے جلوہ نے کیں گرمیاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک

مرے غنی نے جو اہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک

رہا جو قانِع یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک

تجمل ِ شب اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل میں سبز ہائے فلک

خطاب ِ حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک

یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک

رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک

No comments yet

تاب مرآتِ سحر گرد بیا بانِ عرب
غازۂ روئے قمر دودِ چراغان ِ عرب

اللہ اللہ بہارِ چمنستان ِ عرب
پاک ہیں لوث خزاں سے گل وریحانِ عرب

جوشش ابر سے خونِ گلِ فردوس کرے
چھیڑ دے رگ کو اگر خار بیابانِ عرب

تشنۂ نہرِ جناں ہر عربی و عجمی !
نہرِ جناں ہر عربی وعجمی !

لب ہر نہر جناں تشنۂ نیسانِ عرب
طوقِ غم آپ ہو ا ئے پرِ قسمری سے گرے

اگر آزاد کرے سروِ خرامان عرب
مہر میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چَملے

ڈالے اِک بوند شب دے میں جو بارانِ عرب
عرش سے مژدۂ بلقیس ِ شفاعت لایا

طائرِ سدرہ نشیں مرغ ِ سلیمانِ عرب
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
کوچہ کوچہ میں مہکتی ہے یہاں بوئے قمیص

یوسفِستاں ہے ہر اِک گوشۂ کنعانِ عرب
بزمِ قدسی میں ہے یادِ لبِ جاں بخش حضور

عالم ِ نور میں ہے چشمۂ حیوانِ عرب
پائے جبریل نے سرکار سے کیا کیا القاب

خسرو خیلِ ملک خادمِ سلطانِ عرب
بلبل و نیلپر و کبک بنو پروانو!

مہ و خورشید پہ ہنستے ہیں چراغانِ عرب
حور سے کیا کہیں موسیٰ سے مگر عرض کریں

کہ ہے خود حسنِ ازل طالبِ جانانِ عرب
کرمِ نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں

کہ رضا ئے عجمی ہو سگِ حسّانِ عرب
پھر اٹھا ولولۂ یادِ مغیلان ِ عرب
پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابان ِ عرب

باغ ِ فردوس کو جاتے ہیں ہزارانِ عرب
ہائے صحرائے عرب ہائے بیابانِ عرب

میٹھی باتیں تری دینِ عجم ایمانِ عرب
نمکیں حسن تراجانِ عجم شانِ عرب

اب تو ہے گریہ ٔ خوں گوہر دامانِ عرب
جسمیں دو لعل تھے زہرا کے وہ تھی کانِ عرب

دل وہی دل ہے جو آنکھوں سے ہو حیرانِ عرب
آنکھیں وہ آنکھیں ہیں جو دل سے ہوں قربانِ عرب

ہائے کس وقت لگی پھانس اَلم کی دل میں
کہ بہت دوٗر رہے خارِ مغیلانِ عرب

فصلِ گل لاکھ نہ ہو وصل کی رکھ آس ہزار
پھولتے پھلتے ہیں بے فصل گلستانِ عرب

صدقے ہونے کو چلے آتے ہیں لاکھوں گلزار
چکھ عجب رنگ سے پھولا ہے گلستان ِ عرب

عندلیبی پہ جھگڑتے ہیں کٹے مَرتے ہیں
گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلِستان ِ عرب

صدقے رحمت کے کہاں پھول کہاں خار کا کام
خود ہے دامن کشِ بلبل گلِ خندانِ عرب

شادی حشر ہے صَدقے میں چھٹیں گے قیدی
عرش پر دھوم سے ہے دعوتِ مہمان عرب

چرچے ہوتے ہیں یہ کمھلائے ہوئے پھولوں میں
کیوں یہ دن دیکھتے پاتے جو بیابانِ عرب

تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسانِ عجم
تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزارانِ عرب

ہشت خلد آئیں وہاں کسبِ لطافت کو رضا
چار دن برسے جہاں ابرِ بہارانِ عرب

No comments yet

تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا

سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے
افقِ نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا

مُرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں
ہااصیل ایک نو اسنج رہے گا تیرا

جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا

بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہُوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا

تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کیسی
قطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا

سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا

اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اِک تو، ہے کہ پَروانہ ہے کعبہ تیرا

شجرِ سرو سہی کِس کے اُگائے تیرے
معرفت پھول سہی کس کا کِھلا یا تیرا

تو ہے نو شاہ بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا

ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جو ش پہ ہے
بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا

گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا

صفِ ہر شجرہ میں ہوتی ہے سَلامی تیری
شاخیں جھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا

کِس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیا
کون سے سِلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا

نہیں کس چاندکی منزل میں ترا جلوۂ نور
نہیں کس آئینہ کے گھر میں اُجالا تیرا

راج کِس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کِس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا

مزرع ِ چِشت و بخارا و عِراق واجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا

اور محبوب ہیں ، ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یوں تو محبوب ہے ہر چاہنے ولا تیرا

اس کو سرفرد سَراپا بفراغت اوڑھیں
تنگ ہو کر جو اترنے کو ہو نیما تیرا

گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دل لوٹ گئے
کشفِ ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا

تاجِ فرقِ عرفا کس کے قدم کو کہیے
سر جسے باج دیں وہ پاؤں ہے کِس کا تیرا

سُکر کے جوش میں ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا

آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا

وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیرِ حضیض
اور ہر اَوج سے اونچا ہے ستارہ تیرا

دل ِ اعدا کو رضا تیز نمک کی دُھن ہے
اِ ک ذرا اور چھڑ کتار ہے خامہ تیرا

No comments yet

تیری تکریم میں تیری تعظیم میں کس کو شک ہے بھلا کربلا کربلا
پھر بھی میرا قلم، تجھ سے شکوے رقم آج کرنے چلا کربلا کربلا

تو فراط آشنا ، تجھ میں دجلہ رواں پھر بھی آل ِ محمد کی سوکھی زباں
تیرے مہمان تھے ، اپنے مہمان سےتو نے یہ کیا کیا کربلا کربلا

واسطہ ان کے آباء کا دے کر اگر ، مانگتا اپنے سینہ میں زم زم کا گھر
اِک کرشمہ دکھاتا وہاں بھی خدا، کیوں نہ مانگی دعا کربلا کربلا

رات ہو دن ہو جب ان کے ہلتے جو لب ، اپنے خیموں میں قرآن پڑھتے تھے سب
تو نے دیکھا یہ سب ، تو نے خود بھی سنا اور کچھ نہ کیا کربلا کربلا

جن کے اہلِ حرم نُورِ مستورِ حق ، چادریں جن کے سر کی قرآں کا ورق
جن کےخیموں کے پردے غلافِ حرم، ان کو لوٹا گیا کربلا کربلا

آرزو التجا حسرتیں منّتیں ، جن کے قدموں کے بو سے کو حوریں کریں
ایسی شہزادیاں اور بربادیاں ، تو نے دیکھا کیا کربلا کربلا

وہ سکینہ تھی جو غم سے موسوم تھی ، کتنی معصوم تھی کتنی مغموم تھی
پوچھتی پھر رہی تھی ہر اِک سے پتہ ، تو نے کیا کہ دیا کربلا کربلا

نسل سے بولہب کی وہ دو ہاتھ تھے جن میں نیزہ تھا نیزے پہ فرقِ حُسین
کاش ہوتے نبی تو اترتی وہاں پھر سے تبت یدا کربلا کربلا

اہلِ بیت اور ان کی محبّت ادیب ، یہ مقدر یہ قسمت ، یہ روشن نصیب
اس وظیفہ سے راضی ہے مجھ سے خدا دیکھ یہ مرتبہ کربلا کربلا

No comments yet

تیرے ذکر سے مری آبرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تو میرے کلام کا رنگ و بو تیری شان جَلّ جَلالہٗ

جو چٹک کے غنچہ کِھلے یہاں تو کرے وہ وصف تیرا بیاں
ہے چمن چمن تیری گفتگو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
مرے دل میں عشقِ نبی دیا جو دیا بجھا تھا جلا دیا
جسے چاہے جیسے نواز ے تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ

جو طلب کا بھید ہیں جانتے وہ تجھی کو تجھ سے ہیں مانگتے
جو تیرے ہوئے ہیں انہیں کا تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ

یہ ادیب میں تھا کہاں تیری شان کرتا جو یوں بیاں
ہے تیرے کرم سے یہ سرخرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ

No comments yet

تُو نے مجھ کو حج پہ بُلایا یا اللہ میری جھولی بھردے
گِرد کعبہ خوب پھرایا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
میدانِ عرفات دکھا یا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
بخش دے ہر حاجی کو خدایا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
بہرِ کوثرو بِیرِ زم زم کردے کرم اے ربّ اکرم
حشر کی پیاس سے مجھ کو بچانا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
مولیٰ مجھ کو نیک بنادے اپنی الفت دل میں بسا دے
بہرِ صفا اور بہرِ مروہ یا اللہ مِری جھولی بھر دے
یا اللہ یا رحمٰن یا حنّان یا منّانُ
بخش دے بخشے ہوؤں کا صدقہ یا اللہ مِری جھولی بھر دے
واسطہ نبیوں کے سَرور کا واسِطہ صِدّیق اور عُمر کا
واسِطہ عثمان و حیدر کا یا اللہ مِری جھولی بھر دے
نارِ جہنّم سے تُو بچانا خُلدِ بریں میں مجھ کو بسانا
یاربّ اَز پئے ابو حنیفہ یا اللہ مِری جھولی
سائل ہوں میں تیری وِلا کا پھیر دے رُخ ہر رنج وبلا کا
واسطہ شاہِ کرب و بلا کا
جنّت میں آقا کا پڑوسی
بن جائے عطّار الٰہی
بَہرِ رضا و قُطبِ مدینہ
یا اللہ مِری جھولی بھردے

No comments yet

تم ہو شریک غم تو مجھے کوئی غم نہیں
دنیا بھی میرے واسطے جنت سے کم نہیں

چاہا ہے تجھ کو تجھ پہ لٹائی ہے زندگی
تیرے علاوہ کچھ مرا دین و دھرم نہیں

وہ بد نصیب راحتِ ہستی نہ پاسکا
جس پر مرے حبیب کی چشم کرم نہیں

منزل مجھے ملے نہ ملے اس کا کیا گلہ
وہ میرے ساتھ ساتھ ہیں یہ بھی تو کم نہیں

سجدہ اسی کا نام ہے جب تم ہو سامنے
ایسی نماز کیا جو بروئے صنم نہیں

اس راستے پہ سر کو جھکانا حرام ہے
جس راستے پہ آپ کا نقشِ قسم نہیں

اۓ آنے والے اپنی جبیں کو جھا کے آ
یہ آستانِ یار ہے کوئے حرم نہیں

اہل جنوں کا اس لیے مشرب جد ا رہا
واقف نیازِ عشق سے شیخ حرم نہیں

Poet :فنا صاحب

No comments yet

ترے فیضانِ بے حد سے کسے انکار ہے وارث
کہ ہم جیسے غریبوں کا تو ہی غمخوار ہے وارث

مری کشتی ہے طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں
اب ایسے وقت میں تیری مدد درکار ہے وارث

ادب ہے مانع اظہار ورنہ صاف کہہ دیتا
کہ دیدارِ محمدﷺ آپ کا دیدار ہے وارث

حریم ناز سے باہر کسی دن زحمت جلوہ
کہ مدت سے زمانہ طالب دیدار ہے وارث

جو یوں ممکن نہیں تو خواب ہی میں عید نظارہ
کہ عنبر بھی تمہارا طالب دیدار ہے وارث

No comments yet

تجھ کو پکارتا ہوں اے خواجۂ اجمیری
کر دے نگاہ مجھ پر قسمت بدل دے میری

در، در کہاں پھروں میں، تجھ پر ہی مرمٹوں میں
میں ہو گیا ہوں تیرا اب لاج رکھ لے میری

مشتاق دید لاکھوں کب سے تڑپ رہے ہیں
دے اذنِ حاضری اب کس بات کی ہے دیری

ہو تیری ذات سے وہ نسبت مجھے بھی حاصل
جب بھی پکاروں تجھ کو تو بات سن لے میری

پچھلے برس تو کی تھی اجمیر کی زیارت
اس سال میرے خواجہ پھر حاضری ہو میری

ہو جائے کاش پوری محمود کی تمنا
ہو ہر طرف اجالا چھٹ جائے یہ اندھیری

No comments yet

تیرا نام پاک معین الدین تو رسول پاک کی آل ہے
تری شان خواجہ خواجگاں تجھے بیکسوں کا خیال ہے

مرا بگڑا وقت سنوار دے، مرے خواجہ مجھ کو نواز دے
تیری اک نگاہ کی بات ہے مری زندگی کا سوال ہے

یہاں بھیک ملتی ہے بے گماں، یہ بڑے سخی کا ہے آستاں
یہاں سب کی بھرتی ہیں جھولیاں یہ درِ غریب نواز ہے

میں گدائے خواجۂ چشت ہوں مجھے اس گدائی پہ ناز ہے
مجھے ناز خواجہ پہ کیوں نہ ہو مرا خواجہ بندہ نوازہے

No comments yet

تری شان شان یدُ الٰہی تو بڑا غریب نواز ہے تری شان، شان یدُ الٰہی

نہ ہو کعبہ کیوں تیرا آستاں، تری نسبتیں ہیں قرارِ جاں
تری نسبتوں ہی پہ ناز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی

ترے در سے داغِ جبیں ملا، یہ نشان کتنا حسیں ملا
یہ نیاز حاصل ناز ہے، تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی

تو معین امت مصطفٰے ، تو ثبوت رحمت مصطفٰے
تو عطائے میر حجاز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی

ہمیں تو نے اپنا بنالیا، غم دو جہاں سے بچالیا
ترا دست جو دو راز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی

تیرے کیف ذکر سے جھوم لیں تیرے آستانے کو چوم لیں
یہی عاشقوں کی نماز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُ الٰہی

تو حبیب ذات الٰہ ہے، تو ہی بیکسوں کی پناہ ہے
تو کریم وبندہ نواز ہے، تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شان، یدُ الٰہی

جو سنی گئی سرِ کربلا، ہے تری صدا بھی وہی صدا
وہی نغمہ ہے وہی ساز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی

نہ گنے گئے وہ شمار سے، جو پلے ہیں تیرے دیارسے
درِ فیض آج بھی باز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی

تری شان انجم بینوا، کسی حال میں بھی نہ لکھ سکا
تو خدائے پاک کا راز ہے تو بڑا غریب نواز ہے
تری شان، شانِ یدُالٰہی

No comments yet

تری مدح خواں ہر زباں غوثِ اعظم
ترا نام مومن کی جاں غوثِ اعظم
پناہِ غریباں تری ذاتِ والا
ترا گھر ہے دارُ الاماں غوثِ اعظم
ترے جدّ ِ امجد ہیں نورِ الٰہی
ہے نُوری ترا خانداں غوثِ اعظم
ترے وعظ میں آکے شاہِ عرب نے
بڑھادی تری عز وشاں غوثِ اعظم
ملے گی ہمیں تیرے دامن کے نیچے
دو عالم میں امن و اماں غوثِ اعظم
ذرا صدق دل سے پکارو تو ان کو
ابھی جلوہ گر ہوں یہاں غوثِ اعظم
جمیل اب ہوں ساکت مقام ادب ہے
کہاں تیرا منہ اور کہاں غوثِ اعظم

No comments yet

تری عنایات پر خدایا نگاہ سب کی لگی ہوئی ہے
تری عنایات کی بدولت سبھی کی بگڑی بنی ہوئی ہے
تو آسمان و زمیں کا رب ہے ، سبھی کو مولا تری طلب ہے
تری غلامی ہی تیرے بندوں کو دوجہانوں کی خسروی ہے
تو حی و قیوم ہے الٰہی ہے چار سو تیری بادشاہی
تمام عالم ہے تیرا یا رب تو سارے عالم کی روشنی ہے
جو تیری قدرت کے ہیں مظاہر قدم قدم پر ہیں آشکارا
ترے کرشموں کی دھوم یار ب زمانے بھر میں مچی ہوئی ہے
تری ہی تسبیح میں مگن ہیں ہے ذکر تیرا ہر ایک لب پر
ہے کو بہ کو کوئلوں کی “کو کو” چمن میں بلبل چہک رہی ہے
تری ثناء کون کر سکے گا قدم یہاں کون دھر سکے گا
مگر جسے بھی ہے تو نے چاہا اسے یہ توفیق بخش دی ہے
یونہی رہے اس پہ چشمِ رحمت قلم رہے اس کا وقفِ مدحت
کہ تیرا یامین تو ہمیشہ ترے کرم ہی کا مکتجی ہے

No comments yet

تیری شان جل جلالہ
مرے رب کہاں پہ نہیں ہے تو
تیری شان جل جلالہ
تری ذرّے ذرّے میں ہے نمو
تری شان جل جلالہ
تری قدرتوں کا شمار کیا
تری وسعتوں کا حساب کیا
تو محیطِ عالم رنگ و بو
تری شان جل جلالہ
ترا فیض ، فیضِ عمیم ہے
تو ہی میرا ربّ کریم ہے
مرے دل میں تری آرزو
تری شان جل جلالہ
جسے چاہے تو وہ خلیل ہے
جسے تو نہ چاہے ذلیل ہے
ترے ہاتھ ذلت و آبرو
تری شان جل جلالہ

No comments yet