حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو

الٰہی میرا سر ہو اور ان کا آستانہ ہو

تمنا ہے کہ میری روح جب تن سے روانا ہو

دم آنکھوں میں ہو اور پیش نظر وہ آستانہ ہو

زباں جب تک ہے اور جب تک زباں میں تاب گویائی

تری باتیں ہوں تیرا ذکر ہو تیرا فسانہ ہو

مری آنکھیں نہیں آئینۂ حسن روئے صابر کا

دل صد چاک ان کی عنبریں زلفوں کا شانہ ہو

بلا اس کی ڈرے پھر گرمیٔ خورشید محشر سے

ترے لطف و کرم کا جس کے سر پر شامیانہ ہو

انہیں تو مشق تیر نازکی دھن ہے وہ کیا جانیں

کسی کی جان جائے یا کسی دل کا نشانہ ہو

نہ پوچھ اس عندلیب سوختہ ساماں کی حالت کو

قفس کے سامنے برباد جس کا آشیانہ ہو

سر بیدمؔ ازل کے دن سے ہے وقف جبیں سائی

کسی کا نقش پا ہو اور کوئی آستانہ ہو

Poet :Allama Akhtar Raza Khan

No comments yet

حبیب کبریا کے ہمنوا فاروق اعظم ہیں

یقیناً متقی وپار سا فاروق اعظم ہیں

ہےلرزہ ان کےنام پاک سےشیطان کا لشکر

جلال وشان میں بیحد جدا فاروق اعظم ہیں

نزولِ آیتِ فرقاں ہوٸی تجویز پر جن کے

خوشا اس اوج پر جلوہ نما فاروق اعظم ہیں

زمانے نے سبق سیکھا ہے جن کی ذات سے حق کا

وہی ہاں واقف سرّ خدا فاروق اعظم ہیں

کبھی ان کی حیاتِ جاں فزا پڑھ کر ذرا دیکھو

تمہیں معلوم ہوگا پھر کہ کیا فاروق اعظم ہیں

درِ فاروق سے اے عارفہ جو لینا ہے لے لو خدا کے فضل سے حاجت روا فاروق اعظم ہیں

No comments yet

حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیے نار سے بچنے کی صوٗرت کیجیے
اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجیے
اُن کے با ملاحت پر نثار شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے
اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوا نو ! کچھ تو ہمّت کیجیے
پھیر دیجیے پنجۂ دیوِ لعین مصطفٰے کے بل پہ طاقت کیجیے
ڈوب کر یادِ لبِ شاداب میں آب ِکوثر کی سباحت کیجیے
یادِ قیامت کرتے اٹھیے قبر سے جانِ محشر پر قیامت کیجیے
اُن کے در پر بیٹھے بن کر فقیر بے نواؤ فکرِ ثروت کیجیے
جِس کا حسن اللہ کو بھی بَھا گیا ایسے پیارے سے محبّت کیجیے
حیّ باقی جس کی کرتا ہے ثنا مرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے
عرش پر جس کی کمانیں چڑھ گئیں صَدقے اس باز و پہ قوّت کیجیے
نیم واطیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ بلبلو! پاس نزاکت کیجیے
سر سے گرتا ہے ابھی بارِ گناہ خم ذرا فرقِ ارادت کیجیے
آنکھ تو اٹھتی نہیں کیا دیں جواب ہم پہ بے پرسش ہی رحمت کیجیے
عذر بد تر ازگنہ کا ذکر کیا بے سبب ہم پر عنایت کیجیے
نعرہ کیجیے یار سول اللہ کا مفلسو ! سامان ِ دولت کیجیے
ہم تمہارے ہو کے کس کے پاس جائیں صَدقہ شہزادوں کا رحمت کیجیے
مَن ْ رَاٰنِیْ قَد ْ رَأ ی الحق جو کہے کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے
عالِم عِلم دو عالم ہیں حضور آپ سے کیا عرض حاجت کیجیے
آپ سلطان ِ جہاں ہم بے نوا یاد ہم کو وقتِ نِعمت کیجیے
تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت کیجیے
دَر بدر کب تک پھریں خستہ خراب طیبہ میں مدفن عنایت کیجیے
ہر برس و ہ قافلوں کی دھوم دھام آہ سینے اور غفلت کیجیے
پھر پلٹ کر منھ نہ اُس جانب کیا سچ ہے اور دعوائے الفت کیجیے
اَقربا حُبِّ وطن بے ہمتی آہ کِس کِس کی شکایت کیجیے
اب تو آقا منھ دِکھانے کا نہیں کِس طرح رفعِ ندامت کیجیے
اپنے ہاتھوں خود لٹا بیٹھے ہیں گھر کس پہ دعوائے بضاعت کیجیے
کس سے کہیے کیا کیا ۔ کیا ہوگا خود ہی اپنے پَر ملامت کیجیے
عرض کا بھی اب تو منھ پڑتا نہیں کیا علاج ِ دردِ فرقت کیجیے
اپنی اک میٹھی نظر کے شہد سے چارۂ زہرِ مصیبت کیجیے
دے خدا ہمت کہ یہ جان حزیں آپ پر داریں وہ صوٗرت کیجیے
آپ ہم سے بڑھ کے ہم پر مہرباں ہم کریں جرم آپ رحمت کیجیے
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
یا د اس کی اپنی عادت کیجیے

No comments yet

حجّت کے لیے حشر میں ہوگی یہ دلیل
ہر شے کو عطا ہوگی بشر کی صورت
اللہ کی یہ شکل کے خورشید ِ جلال
اللہ کا قرآن ، عمر کی صورت

دین ِ حق کی سر بلندی میں نبوّت کی طلب
بارگاہِ ربّ العزّت میں ہوا ہو جس پہ صاد
ساری دنیا ہے شہنشہاہِ دو عالم کی مُرید
اور عمر خود ہیں شہنشاہِ دو عالم کی مُراد

صف میں جو گُھس پڑے وہ لیے تیغِ شعلہ ور
سر کافروں کے دوش پہ آئے نہ پھر نظر
ہیبت سے ان کی دن میں نکلتے نہ تھے عدو
راتوں کو خواب میں بھی پُکاریں عمر عمر

لڑنے میں یوں تو ایک سے ایک بے مثال ہے
پھر بھی دلوں میں خوف عمر کا یہ حال ہے
ہیں ماہر ان حرب کے باہم یہ مشورے
خطّاب کے پسر سے لڑائی محال ہے

No comments yet

حُبّ دُنیا سے تُو بچا یا ربّ عاشقِ مُصطَفٰے بنا یا ربّ
کر دے حج کا شرف عطا یا ربّ سبز گُنبد بھی دے دکھا یا ربّ
یہ تری ہی تو ہے عنایت کہ مجھ کو مکّے بلا لیا یاربّ
آج ہے رُو برو مِرے کعبہ سلسلہ ہے طواف کا یا ربّ
ابر برسا دے نور کا کہ لوں بارشِ نور میں نہا یا ربّ
کاش لب پر مِرے رہے جاری ذِکر آٹھوں پَہر ترا یا ربّ
چشم تَر اور قلب مُضطر دے اپنی اُلفت کی مے پِلا یا ربّ
آہ! طُغیانیاں گناہوں کی پار نیّا مِری لگا یا ربّ
نفس و شیطان ہو گئے غالب ان کے چُنگل سے تُو چُھڑا یا ربّ
کر کے توبہ میں پھر گناہوں میں ہو ہی جاتاہوں مُبتلا یا ربّ
نِیم جاں کر دیا گناہوں نے مرضِ عصیاں سے دے شِفا یا ربّ
کس کے در پر جاؤں گا مولا گرتُو ناراض ہو گیا یا ربّ
وقتِ رحلت اب آگیا مولیٰ جلوۂ مصطفٰے دکھا یا ربّ
قبر میں آہ! گُھپ اندھیرا ہے روشنی ہو پئے رضا یا ربّ
سانپ لپٹیں نہ میرے لاش سے قبر میں کچھ نہ دے سزا یاربّ
نورِ احمد سے قبر روشن ہو وحشت قبر سے بچا یا ربّ
کردے جنّت میں تُو جوار اُن کا
اپنے عطار کو عطا یاربّ

No comments yet

حَبِیبا اچی شان والیا جے توں آئیوں تے بہاراں آئیاں
اللہ نوں توں پیارا لگنا ایں تاہیوں رب نے وی خوشیاں منائیاں

زلف تری دے کنڈل سوہنے موہ لیندے نے دل من موہنے
چن سدا لُکدا پھرے تیرے مکھ دیاں ویکھ صفائیاں

عرب شریف دیا سردارا آمنہ پاک دیا دلدارا
تیرے جیہا سوہنا سونیئے کدوں جمدیاں نت نت مائیاں

رحمت دی تساں اکھ جد کھولی پاک حلیمہ بھر لئی اے جھولی
لے گئی او خزانے رب دے خالی رِہ گئیاں دو جیاں دائیاں

جس پاسے تُساں کیتے اشارے ، ڈھل پئے اودھر مست نظارے
ظلمتاں دے بند ٹٹ گئے، تساں رحمت اِنج برسائیاں

خالق نے اِنج کر م کمایا ، جیویں کہیا تساں، اُوویں بنایا
شان تیری نہیوں مکنی کئی صدیاں مکن تے آئیاں

ناؔصر پڑھ پڑھ تیریاں نعتاں بُھل گیا سارے جگ دیاں باتاں
پیار تیرا پلے سوہنیا کی کرنیاں ہور کمائیاں

No comments yet

حاجیو! آؤ دیکھو شہنشا ہ کا روضہ
کعبہ تو دیکھ چکے ،کعبے کا کعبہ دیکھو

آب ِزم زم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں
آؤ جو د ِشہہِ کو ثر کا بھی دریا دیکھو

زیر ِمیز اب ملے خوب کرم کے چھینٹے
ابر ِرحمت کا یہاں زورِ برسنا دیکھو

دھوم دیکھی ہے درِ کعبہ پہ بے تابوں کی
ان کے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو

خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلافِ کعبہ
قصر ِمحبوب کے پر دے کا بھی جلوہ دیکھو

واں مطیعں کا جگر خوف سے پانی پایا
یاں سَہِں کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو

غور سے سن تو رؔضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مِرے پیا رے کا روضہ دیکھو

No comments yet