خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیا تمہارے کوچہ سے رخصت کیا نہال کیا
نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھی قضائے لاکے قفس میں شکست بال کیا
وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جسمیں مل ڈلا فغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا
یہ رائے کیا تھی وہاں سے پٹنے کی اے نفس ستم گرالٹی چھری سے ہمیں حلال کیا
یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھکو اے ظالم چھڑاکے سنگِ در پاک سو بال کیا
چمن سے پھینک دیا آشیانہ ٔ بلبُل اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا
تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بگاڑا تھا یہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا
حُضور اُن کے خیالِ وطن مٹا نا تھا ہم آپ مِٹ گئے اچھا فراغ بال کیا
نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے ناکامی ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
جو دل نے مر کے جلایا تھا منّتوں کا چراغ ستم کہ عرض رہِ صر صرِ زوال کیا
مدینہ چھوڑ کے ویرانہ ہند کا چھایا یہ کیسا ہائے حواسوں نے اختلال کیا
تو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سا محبوب بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا
ابھی ابھی چمن میں تھے چہچہے ناگاہ یہ در کیسا اٹھا جس نے جی نڈھال کیا
الٰہی سن لے رضا جیتے جی مولےٰ نے سگامَ چہ میں چہرہ مرا بحال کیا
خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان
بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان
نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے
صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا
جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے
قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے
وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے
حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا
نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے
اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا
یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے
بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا
مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے
طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا
ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا
شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا
شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر
فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا
قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں
اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے
نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے
خراجِ اشک سے قائم ہے قیصری میری
سرورِ عشقِ رسالت، سکندری میری
یہ میرا عہدِ غلامی، غلامیٔ شہِ دیں
اس عہد میں ہے خیالوں پہ افسری میری
غزل کا پھیر کے رخ لے چلا ثناء کی طرف
حرف حرف کو پسند آئی رہبری میری
امیرِ شہرِ سخن ہوں فقیرِ کوئے رسول
انہیں سے فقر، انہیں سے تونگری میری
متاعِ نعت اِسی در سے میں نے پائی ہے
نہ کیوں ہو ناز کے قابل سخن وری میری
وہ واردات جو گذری ہے میرے دل پہ ادیب
سمجھ رہے ہیں اسے لوگ شاعری میری
خُدا کی ذات کو زیبا ہے شانِ یکتائی
اُسی نے جرأتِ اظہار مجھ کو فرمائی
اسی کے لطف سے شاعر بنا، ادیب ہوا
ثناء حضور کی لکھےو ہ خوش نصیب ہوا
یہ اس کی شان کہ اس کے حضور میں ہو کر
یہ دے رہا ہے صدا قلبِ مضطرب، رو کر
کریم ہے تو مجھے نُدرتِ بیاں دیدے
دہن میں حافظِ شیرا ز ؒ کی زباں دیدے
وہ نطق دے کہ ہر اک رنگ سے جُدا کردے
کرم سے مثنوی رومؒ کی اَدا کر دے
بنا دے خواب کی اقبال ؒ کے ، مجھے تعبیر
ہو پائے فکر میں مضبوط ، عشق کی زنجیر
ترے کرم سے نظر آئے حُسن ہر خامی
ہو میری طرزِ نِگارش، عبارتِ جامی ؒ
خِرَدْ سے کہہ دو کہ سر جھکالے! گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جِہَت کو لالے کِسے بتائے کدھر گئے تھے؟
سراغ ِاَین و متٰی کہاں تھا نشان کَیْفَ وَ الیٰ کہاں تھا؟
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے!؟
اُدھر سے پَیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جَلال و ہَیبت کا سامنا تھا جَمال و رَحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے، حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب اُنہیں کی رَوِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقی افزا َدنَا تَدَلّٰی کے سلسلے تھے
ہوا آخر کہ ایک بجرا تَموّجِ بَحر ِہُو میں ابھرا
دَنَا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیے تھے
Qaseeda-e-me’raaj/9
خلدِ بریں خوب ہے آراستہ
فرش سے تا عرش ہے پیراستہ
آؤ چلے آؤ بڑھاتے قدم
دیر سے مشتاق ہیں آمد کے ہم
اے میرے محبوب سلامٌ علیک
اے میرے مطلوب سلامٌ علیک
آؤ چلے آؤ کہ قدسی تمام
باندھے ہوئے صف ہیں برائے سلام
آؤ چلے آؤ کہ رضوانِ خلد
تم پہ تصدیق کرے سامانِ خلد
اے مرے محبوب سلامٌ علیک
اے میرے مطلوب سلامٌ علیک
یہ تو بیاں ہے شبِ معراج کا
ذکر رسولوں کے ہے سرتاج کا
کیا کہے بے چارہ امیر فقیر
جب کہے خود ربِ جلیل و قدیر
اے میرے محبوب سلامٌ علیک
اے میرے مطلوب سلامٌ علیک
خداوندِ کریم کی بارگاہ میں ہے
آپ کے وسیلے کی ضرورت ہے یا رسول اللہ ﷺ
آپ کی سفارش ہو جائے اگر میرے لیے
اِس سے بڑی کیا بات ہو گی یا رسو اللہ
وہ الفاط کہان سے لاؤں میں
جو اللہ کی ثناء اور آپ کی عظمت بیان کر سکیں
پھر بھی یہ کوشش ہے اِس نا چیز کی
آپ سے یہ گزارش خداوندِ کریم تک پہنچانے کی
تنہا جل رہا ہوں میں صحرا ءمیں
آپ کے زلفوں کی چاِؤں ہو جاجائے یا رسول اللہ ﷺ
زندگی میری ہے وہ کشتی جو گم گئی ہے سمندر میں
اسے ایمان کے ساحل پہ پناہ مل جائے یا رسول اللہ صلّی الہن عہ س وآلہٖ وسم
دیوار بن کے رُکے ہیں لوگ
دیوار کے گرنے سے ہو جائے آسرا یا رسو ل اللہ اللہ صلّی الہن عہم وآلہٖ وسم
میں اکیلا کھڑا ہوں اِس ویرانے میں
اللہ ہو عشقِ رسول اللہ دل میں جگا دے ۔
خیر البشر پر لاکھوں سلام لاکھوں درود اور لاکھوں سلام
عرشِ بریں تک چرچا ترا شمس و قمر ہیں صدقہ ترا
اۓ ماہِ کامل حسن تمام خیر البشر پہ لاکھوں سلام
رب کی خوشی ہے منشا ترا منشائے رب ہے تیری رضا
تر ا سن ہے رب کا کاپم خر الر ب پہ لاکو ں سا م
روزِ ازل جو چمکا تھا نُور محشر ہو گا اس کا ظہور
اوّل سے آخر ترھا ہی نام خیر البشر پہ لاکھوں سلام
جن ّوملائک تیرے غلام سب سے سوا ہے تیرا مقام
یٰسین و طٰہٰ تیرے ہی نام خیر البشر پر لاکھوں سلام
سب کو مری ہو یہ ماپم پں س مدیے بن کر غاැم
پڑھےہ درود اور پڑھےب ساeم خرٍ الر س پہ لاکو ں سا م
ترسی ثار ہے مراا نببش قربان تھ پر جانِ ادیب
تھس پر تدمق عالم تابم خرک الريْ پہ لاکو ں ساැم
خدا نے دی ہے زباں ذکر مصطفٰےکے لیے
اب اس سے کام نہ لے اور کچھ خدا کے لیے
اِدھر اٹھائے نہ تھے ہاتھ التجا کے لیے
اُدھر سے دستِ کرم بڑھ گیا عطا کے لیے
اٹھو !تو پرچمِ ذکرِ رسول بن کے اٹھو
جھکو! تو خاک بنو پائے مصطفٰےکے لیے
اگر چلے تو مہک بن کے شہرِ بطحٰی میں
رہے تو ٹھنڈی ! یہی حکم ہے ہوا کے لیے
مریضِ ہجرِ مدینہ ہوں ، مِرے چارہ گرو !
دِلادو !اذنِ حضور ی مجھے شِفاء کے لیے
بس اتنی بات کہ ہم ہیں تمہارے شیدائی
تُلا ہوا ہے زمانہ ہر ا ِک جفا کے لیے
ہزار شکر بجا لاؤ اس عطا پہ ادؔیب
یہ اشک تم کو ملے ہیں جو التجا کے لیے
خدا کا ذکر کرے ، ذکر مصطفٰےنہ کرے !
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
در رسول ﷺ پہ ایسا کبھی نہیں دیکھا
کوئی سوال کرے اور وہ عطا نہ کرے
کہا خدا نے شفاعت کی بات محشر میں
میرا حبیب ﷺ کرے ، کوئی دوسرا نہ کرے
مدینے جا کے نکلنا نہ شہر سے باہر
خدانخواستہ یہ زندگی وفا نہ کرے
اسیر جس کو بنا کر رکھیں مدینے میں
تمام عمر رہائی کی وہ دعا نہ کرے
نبی ﷺ کے قدموں پہ جس دم غلا م کا سر ہو
قضا سے کہہ دو کہ اِک لمحہ بھی قضا نہ کرے
شعورِ نعت بھی ہو اور زباں بھی ہو ادؔیب
وہ آدمی نہیں جو اِن کا حق ادا نہ کرے
خُسروی اچھی لگی نہ سَروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی
دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی
اُن کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی
میں نہ جاؤں گا کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر
مجھ کو کوئے مصطفٰے کی چاکری اچھی لگی
ناز کر تو اۓ حلیمہ! سَرورِ کونین پر
گر لگی اچھی تو تر ی جھونپڑی اچھی لگی
والہانہ ہو گئے جو تیرے قدموں پر نثار
سَرورِ کون و مکاں کی سادگی اچھی لگی
آج محفل میں نیؔازی نعت جو میں نے پڑھی
عاشقانِ مصطفٰے کو وہ بڑی اچھی لگی