روئے رنگیں نظر آیا تو چمن بھول گئے
سونگھ کر زلف کی بو مشک ختن بھول گئے
خواب میں دیکھ لیے جب لب و دندان نبی
لعل کا دھیان گیا در عدن بھول گئے
نعت گوئی میں ہوئے محو تو پایا وہ مزہ
ماسوا اس کے کل اقسام سخن بھول گئے
کوئے طیبہ میں جو آ پہنچے عنادل اڑ کر
دیکھ کر رنگ فضا یاد چمن بھول گئے
در بدر ہو کے در شاہ پہ جب جا پہنچے
غم غلط ہو گیا سب رنج و محن بھول گئے
روضۂ پاک پہ پہنچے تو یہ ٹھنڈک پہنچی
سوز فرقت نہ رہا دل کی جلن بھول گئے
عشق سرور نے یہ تاثیر دکھائی فائقؔ
سوئے طیبہ جو چلے حب وطن بھول گئے
راہ پُر خار ہے کیا ہونا ہے پاؤں افگار ہے کیا ہونا ہے
خشک ہے خون کہ دشمن ظالِم سخت خونخوار ہے کیا ہونا ہے
ہم کو بِد کر وہی کرنا جس سے دوست بیزار ہے کیا ہونا ہے
تن کی اب کون خبر لے ہےہے دِل کا آزار ہے کیا ہونا ہے
میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی ضد ہے اِنکا رہے کیا ہونا ہے
دل کہ تیمار ہمارا کرتا آپ بیمار ہے کیا ہونا ہے
پَر کٹے تنگ قفس اور بلبُل نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے
چھپ کے لوگوں سے کیے جس سے گناہ وہ خبر دار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پَروا دیکھ سرپہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
تیرے بیمار کو میرے عیسٰی غش لگا تار ہے کیا ہونا ہے
نفس پر زور کا وہ زور اور دِل زیر ہے زارہے کیا ہونا ہے
کام زنداں کے کیے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
ہائے رے نیند مسافر تیری کوچ تیار ہے کیا ہونا ہے
دوٗر جانا ہے رہا دِن تھوڑا راہ دشوار ہے کیا ہونا ہے
گھر بھی جانا ہے مُسافر کہ نہیں مت پہ کیا مار ہے کیا ہونا ہے
جان ہلکان ہوئی جاتی ہے بارسا بار ہے کیا ہونا
پار جانا ہے نہیں ملتی ناؤ زور پر دھار ہے کیا ہونا ہے
راہ توتیغ پر اور تلووں کو گلۂ خار ہے کیا ہونا ہے
روشنی کی ہمیں عادت اور گھر تیرۂ و تار ہے کیا ہونا ہے
بیچ میں آگ کا دریا حائل قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے
اس کڑی دھوپ کو کیوں کر جھیلیں شعلہ زن نار ہے کیا ہونا ہے
ہائے بگڑی تو کہاں آکر ناؤ عین منجدھار ہے کیا ہونا ہے
کل تو دیدار کا دن اور یہاں آنکھ بے کار ہے کیا ہونا ہے
منھہ دکھانے کا نہیں اور سحر عام دربار ہے کیا ہونا ہے
ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے
لے وہ حاکم کے سپاہی آئے صبح اظہار ہے کیا ہونا ہے
واں نہیں بات بنانے کی مجال چارہ اقرار ہے کیا ہونا ہے
ساتھ والوں نے یہیں چھوڑ دیا بے کسی یار ہے کیا ہونا ہے
آخری دید ہے آؤ مِل لیں رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے
دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا اب سفر بار ہے کیا ہونا ہے
جانے والوں پہ یہ رونا کیسا بندہ ناچار ہے کیا ہونا ہے
نزع میں دھیان نہ بٹ جائے کہیں یہ عبث پیار ہے کیا ہونا ہے
اس کا غم ہے کہ ہر اِک کی صوٗرت گلے کا ہار ہے کیا ہونا ہے
باتیں کچھ اور بھی تم سے کرتے پر کہاں وار ہے کیا ہونا ہے
کیوں رضا کُڑھتے ہو ہنستے اٹھو
جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے
رونق ِ بزم جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ
جس کو قرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو!
اُن کے خوان ِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ
ماہِ من یہ نیّر محشر کی گرمی تابکے
آتش عصیاں میں خود جلتی ہے جان سوختہ
برق انگشت نبی چم کی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینہ ٔ مہ میں نشانِ سوختہ
مہر عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز
پیش ِ ذرّات ِ مزارِ بید لانِ سوختہ
کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم
بال و پر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ
بہر حق اے بحرِ رحمت اک نگاہ ِ لطف بار
تابکے بے آپ تڑپیں ماہیانِ سوختہ
روکش خورشید محشر ہو تمہارے فیض سے
اِک شرارِ سینۂ شیدائیانِ سوختہ
آتش ِ تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کباب
خضر کی جاں ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ
آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ
لطفِ برق جلوہ ٔ معراج لایا وجد میں
شعلۂ جوّالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ
رُخ دن ہے یا مہر سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
شب زلف یا مشک ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
حق یہ کہ ہیں عبدِ الٰہ اور عالمِ امکاں کے شاہ
برزخ ہیں وہ سرِّ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
بلبل نے گل اُن کو کہا قمری نے سردِ جانفزا
حیرت نے جھنجھلا کر کہا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روزِ جزا
دی اُن کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
کوئی ہے نازاں زہد پر یا حسنِ تو بہ ہے سِپر
یاں ہے فقط تیری عطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
دن لَہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رزقِ خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
ہے بلبُل ِ رنگیں رضا یا طوطی ِ نغمَہ سرا
حق یہ کہ واصِف ہے ترا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں
مصطفٰے ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں
ہوں مسلماں گرچہ ناقِص ہی سہی اے کاملو!
ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں
غنچے مَا اَوْحٰی کے چٹکے دَنٰی کے باغ میں
بلبل سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں
اُس میں زم زم ہے کہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیش
کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں
پنجۂ مہر عرب ہے جس سے دریا بہہ گئے
چشمہ ٔ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں
ایسا امی کس لیے منت کشِ استا د ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَأ وَ رَبُکَ الْاَکْرمْ نہیں
اوس مہر حشر پر پڑ جائے پیاسو تو سہی
اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں
ہے انہیں کے دم قدم کی باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں
سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یا رب اور رضا
خواہشِ دیہیم قیصر شوقِ تختِ جم نہیں
رشکِ قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں
ذرّہ ترا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں
درّ نجف ہوں گوہر ِ پاک ِ خوشاب ہوں
یعنی ترابِ رہ گزر بو ترا ب ہوں
گر آنکھ ہوں تو آبر کی چشم پُر آب ہوں
دل ہوں تو برق کا دلِ پر اضطراب ہوں
خونیں جگر ہوں طائر بے آشیاں شہا
رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں
بے اصل و بے ثبات ہوں بحر کرم مدد
پروردۂ کنار سراب و حباب ہوں
عبرت فزا ہے شرم گنہ سے مِرا سکوت
گویا لب ِ خموشِ لحد کا جواب ہوں
کیوں نالہ سوز لے کر وں کیوں خونِ دل پیوں
سیخ کباب ہوں نہ میں جام شراب ہوں
دل بستہ بے قرار جگر چاک اشکبار
غنچہ ہوں گل ہوں برقِ تپاں ہوں سحاب ہوں
دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتر
دفتر میں عاصیوں کے شہا انتخاب ہوں
مولٰی دہائی نظروں سے گر کر جلا غلام
اشک ِ مژہ رسیدہ ٔ چشم کباب ہوں
مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیں
در دا میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں
صَدقے ہوں اس پہ نار سے دیگا جو مخلصی
بلبل نہیں کہ آتشِ گل پر کباب ہوں
قالب تہی کیے ہمہ آغوش ہے ہلال
اے شہسَوار طیبہ میں تیری رکاب ہوں
کیا کیا ہیں تجھ سے ناز تِرے قصر کو کہ میں
کعبہ کی جان عرش بریں کا جواب ہوں
شاہا بجھے سقر مرے اشکوں سے تانہ میں
آبِ عبث چکیدہ ٔ چشمِ کباب ہوں
میں تو کہا ہی چاہوں کہ بندہ ہوں شاہ کا
پَر لطف جب ہے کہدیں اگر وہ جناب “ہوں ”
حسرت میں خاک بوسیِ طیبہ کی اے رضا
ٹپکا جو چشمِ مہر سے وہ خونِ ناب ہوں
رسولِ معظم سلامٌ علیکم
نبیِ مکرم سلامٌ علیکم
ثناء تیری کرتا ہے قرآں کے اندر
خدائے دو عالم ، سلامٌ علیکم
تیری یاد میں ایسی ساعت بھی آئے
میری آنکھ ہو نم سلامٌ علیکم
یہ رب کی عطا ہے، یہ رب کا کرم
ثناء خواں تیرے ہم سلامٌ علیکم
ہمیں ہے بھروسہ شفاعت پہ تیری
مٹا حشر کا غم سلامٌ علیکم
قیامت کے دن ساری مخلوق ہوگی
تیرے زیرِ پرچم سلامٌ علیکم
یہ دیکھا ہے اکثر ہوا دردِ فرقت
تیرے ذکر سے کم سلامٌ علیکم
لبوں پر رہے اس ریاضِ حزیں کے
تیرا ذکر ہر دم سلامٌ علیکم
رس بہ فریاد یا شہۂ بغداد
وقت امداد یا شہۂ بغداد
تیرے در کے غلام حاضر ہیں
سن لے فریاد یا شہۂ بغداد
اک نگاہِ کرم کے طالب ہیں
دل ہو آباد یا شہۂ بغداد
مشکلیں دور ہوگئیں ساری
جب کیا یاد یا شہۂ بغداد
مجھ کو ہر دل میں نظر آتا ہے
تو ہی آباد یا شہۂ بغداد
تیرے در کا فقیر ہے محمود
کردے اب شاد یا شہۂ بغداد
رُخِ محبوبِ سُبحانی کے صدقے
میں اس تصویر نورانی کے صدقے
شہۂ اقلیمِ عرفانی کے صدقے
جناب غوثِ صمدانی کے صدقے
معین الدین اجمیری کے قرباں
محی الدین جیلانی کے صدقے
بنا ہے سینہ گلزارِ خلیلی
میں اپنے دردِ پہانی کے صدقے
تصدق مہہ جبینوں پر زمانہ
میں اپنے پیر لاثانی کے صدقے
فدا بیدم علی کے لاڈلوں پر
رسول اللہ کے جانی کے صدقے
رحمت دا خزینہ اے
لوکاں دِیاں لکھ ٹھاراں ،ساڈی ٹھار مدینہ اے
محبوب دا میلہ اے
محفل نوں سجائی رکھنا ں، او دے آون دا ویلہ اے
دَسّاں گَل کی خزینے دی
ساری دنیا کھاندی اے خیرات مدینے دی
اج ساڈی وی عید ہووے
اگے اگے کملی والا پِچّھے بابا فرید ہو وے
زُلفاں چھلّے او چھلّے
سارا جگ سوہنڑاں اے، ساڈے مدنی توں تھلّے او تھلّے
کوئی مِثل نیئوں ڈھولٹ دی
چُپ کر مِؔہر علی ایتھے جانیئوں بولٹ دی
رحمت دا دریا الٰہی ہر دم و گدا تیرا
جے اِک قطرہ بخشے مینوں کم بن جاوے میرا
اللہ نبی دا نام لئے اللہ نبی دا
جے میں ویکھا ں عملاں ولّے کچھ نئیں میرے پلّے
جے میں ویکھاں رحمت رب دی بلّے بلّے بلّے
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
خَس خَس جِاّنں قَدر نہ میرا، صاحب نوں وڈیا ئیاں
میں گلیاں دا روڑا کوڑا ،محل چڑھائیاں سائیاں
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
میں نیواں مرا مُرشد اُچّا، اُچّیاں سنگ میں لائی
صدقے جانواں اِیناں اُچّیاں تائیں، جِناں نیوئیاں سنگ نِھاسنئی
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
مُرشِد دے دُو ارے اُتّے محکم لائیے چوکاں
نَوَیں نَوَیں نہ یار بنائیے وانگ کمینئیاں لوکاں
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
چپ رَہ سیں تے موتی مِل سَن، صبر کریں تا ںہیرے
پاگلاں وانگوں رَولا پاویں، نہ موتی نہ ہیرے
اللہ نبی نام لئے اللہ نبی دا
آقا! سَدلو مدینے، تے ٹُر گئے کنِّے سفینے
تے سَدلو سب نُوں مدینے ،تے سَدلو اَیسّے مہینے
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
پاک محمد ﷺ نیں پیارے ،دو جہاناں دے سہارے
عرش وی صَلّ علٰے پکارے ،تے رل مل کرو دعاواں
مدینے نوں جائیے سارے
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
دِل دیاں سد راں لئَےکے، مدینے نُوں میں جاواں
جاکے حال سُناواں ،تے سنگِ اَسوَد وی چمُّاں
جالیاں اکھیاں نال لاواں، پی کے زم زم دا پانی
میں دل دی پیاس بجھا واں
کہو اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
دو جہاناں دے والی! آپ دا رتبہ اے عالی
آپ دی شان نرالی، آپ دا رتبہ اۓ عالی
آپ دو جہاناں دے والی میں تِرے در دا سوالی
میں تے نئیں جاناں خالی
اللہ اللہ کہو اللہ اللہ
آقا !سَدلو مدینے، تےَ ٹُر گئے کنِےّ سفینے
چوں ماہ ِ در ارض و سما ، تاباں توئی، تاباں توئی
رشکِ ملک، نورِ خدا، انساں توئی ،انساں توئی
روشن زرویت دو جہاں ، عکسِ رُخَت خورشید و ماہ
اۓ نورِ ذاتِ کبریا ! رخشاں توئی، رخشاں توئی
آیات ِقرآں اَبرُویت، تفسیر ِقرآں گیسُویَت
اۓ روئے تو! قرآنِ ما، ایماں توئی ، ایماں توئی
یا مصطفٰے !یا مجتبٰے! ارحم لنا، ارحم لنا
دستِ ہما بے چارا را، داماں توئی، داماں توئی
من عاصیم ، من عاجز م ، من بیکسم حالِ مرا
یا شافعِ روزِ جز ا! پُر ساں توئی، پُرساں توئی
جاؔمی رود از چشمِ ما جلوہ نما بہرِ خدا
جان و دلم ہر دو فدا، جاناں توئی، جاناں توئی
رحمتِ عالم تیری اُونچی شان
شان اُونچی شان مولا تیر ی شان
بدر الدّجٰیہو، نور خدا ہو
چہرہ ہے مثلِ قرآن
سر پہ تمہارے تاج ِشفاعت
بخشش کا سامان
کالی زلفیں کالی چادر
آپ کی ہے پہچان
آپ ہیں اوّل، آپ ہیں آخر
نبیوں کے سلطان
ختمِ نبوت ماہِ رسالت
روشن ہے دل و جان
دین کے رہبر، شافع محشر
ہر دل کا ارمان
ذکر تمہارا دونوں جہاں میں
ہر لب پہ ،ہر آن
دونوں جہاں کے آپ ہیں والی
محسؔن کا ایمان
رُخ ِمصطفٰے کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفٰےکا ، شبِ غم نے ڈھلنا سیکھا
یہ زمیں رُکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب مِرے محمدﷺ تو جہاں نے چلنا سیکھا
بڑا خوش نصیب ہوں میں میری خوش نصیبی دیکھو
شہ ِ انبیاء کے ٹکڑوں پہ ہے میں نے پلنا سیکھا
میں گِرا نہیں جو اب تک یہ کمالِ مصطفٰےہے
میری ذات نے نبی سے ہے سنبھلنا سیکھا
میرا دل بڑا ہی بے حس تھا کبھی نہیں یہ تڑپا
سُنی نعت جب نبی کی تو یہ دل مچلنا سیکھا
میں تلاش میں تھا رب کی کہاں ڈھونڈ تا میں اس کو؟
لیا نام جب نبی کا تو خدا سے ملنا سیکھا !
میں رہا خؔلش مظفر درِ پاک مصطفٰے پر
میرے جذبِ عاشقی نے کہاں گھر بدلنا سیکھا