شبِ لحیہ و شارب ہے رُخِ روشن دن
گیسو وشب قدر و براتِ مومن
مژگاں کی صفیں چار ہیں دو ابرو ہیں
وَالْفَجْر کے پہلو میں لَیَالٍ عَشرٍ
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے
کِس خاکِ پاک کی تو بنی خاک ِ پا شفا
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے
آبِ حیاتِ رُوح ہے زرقا کی بُوند بُوند
اکسیر اعظم مسِ دل خاک دَر کی ہے
ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے
لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضرت کی ہے
وہ دیکھو جگمگا تی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے !
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِی ْ
اُن پر درود جن سے نوید اِن بُشَر کی ہے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیے
اصلِ مُراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر ہے
کعبہ بھی ہے انہیں کی تجَلی کا یک ظِلّ
روشن انھیں کے عکس سے پتلی حجر کی ہے
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منٰی
لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے
مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
صدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروض ِ غرر کی ہے
ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پَردہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائِض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
شر خیر شور سور شرر دور نار نور!
بشرٰی کہ بارگاہ یہ خیر البشر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جَاؤ ک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
بد ہیں مگر انہیں کے ہیں باغی نہیں ہیں ہم
نجدی نہ آئے اس کو یہ منزل خطر کی ہے
تف نجدیت نہ کفر اسلام سب پہ حرف
کافر ادھر کی ہے نہ اُدھر کی ہے
حاکم حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مُراد کِس آیت خبر کی ہے
شکلِ بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو !
کیا قدر اُس خمیرۂ ماو مدر کی ہے
نورِ الٰہ کیا ہے محبّت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے
ذکرِ خدا جو اُن سے جُدا چاہو نجدیو!
واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے
بے اُن کے واسطہ کے خدا کچھ عطا کرے
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے
مقصود یہ ہیں آدم و نوح وخلیل سے
تخم ِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے
اُن کی نبوّت اُن کی اُبوّت ہے سب کو عام
امّ البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے
ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صَدا بوا لبشر کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جِلا نماز
یہ کہتی ہے اذا ن جو پچھلے پہر کی ہے
دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
اُن پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے
اُن پر درود جن کو کَسِ بے کَساں کہیں
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ بارگاہ مالکِ جن و بشر کی ہے
شمس و قمر سَلام کو حاضر ہیں السّلام
خوبی انہیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے
سب بحر و بر سلام کو حاضِر ہیں السّلام
تملیک انہیں کے نام تو ہر بحر و بر کی ہے
سنگ وشجر سلام کو حاضر ہیں السّلام
کلمے سے ترزبان درخت و حجر کی ہے
عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ملجا یہ بارگاہ دُعا و اثر کی ہے
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السّلام
راحت انھیں کے قدموں میں شوریدہ سر کی ہے
خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السّلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے
سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ جلوہ گاہ مالکِ ہر خشک وتر کی ہے
سب کرو فر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کرّو فر کی ہے
اہل ِ نظر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ گرد ہی تو سُرمہ سب اہلِ نظر کی ہے
آنسو بہا کہ یہ گئے کالے گنہ کے ڈھیر
ہاتھی ڈوباؤ جھیل یہاں چشم تر کی ہے
تیری قضا خلیفہ ٔ احکام ِ ذی الجلال
تیری رضا حلیف قضا و قدر کی ہے
یہ ساری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی
سَرد اس کی آب و تاب سے آتشِ سقر کی ہے
جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤ فٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
دامن کا واسطہ مجھے اُس دھوٗپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اِس دو پہر کی ہے
ماں دونوں بھائی بیٹے بھتیجے عزیز دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
فضل خدا سے غیبِ شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے
کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولٰی کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے
اُ ن پر کتاب اتری بَیَا نًا لِّکلِّ شَیءٍ
تفصیل جس میں مَا عَبَر و مَا غَبَر کی ہے
آگے رہی عطا وہ بقدر طلب تو کیا
عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے
بے مانگے دینے والے کی نعمت میں غرق ہیں
مانگے سے جو ملے کسے فہم اس قدر کی ہے
احباب اس سے بڑ ھ کے تو شاید نہ پائیں عرض
نا کر وہ عرض عرض یہ طرزِ دگر کی ہے
دنداں کا نعت خواں ہوں پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مِرے آبِ گُہر کی ہے
دشتِ حرم میں رہنے دے صیّاد اگر تجھے
مٹی عزیز بلبُل ِ بے بال و پر کی ہے
یا رب رضا نہ احمد پار ینہ ہو کے جائے
یہ بارگاہ تیرے حبیبِ اَبَر کی ہے
توفیق دے کہ آگے نہ پیدا ہو خوئے بَد
تبدیل کر جو خصلتِ بد پیشتر کی ہے
آ کچھ سُنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّت ِ سوزِ جگر کی ہے
شورِ مِہ نَوسن کر تجھ تک میں دَواں آیا
ساقی میں ترے صدقے میں دے رمضان آیا
اس گل کے سوا ہر پھول با گو ش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا
جب بامِ تجَلی پر وہ نیّر ِ جاں آیا
سرتھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا
طیبہ کے سوا سب باغ پا مالِ فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عہدِ خزاں آیا
سراور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نور
ظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا
کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہے
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوٗپ کڑی کیسی
لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
لے طوقِ الم سے اَب آزاد ہو اے قمری
چٹھی لیے بخشش کی وہ سرو رواں آیا
ناماں سے رضا کے اب مٹ جاؤ بُرے کامو
دیکھو مِرے پلّہ پر وہ اچھے میاں آیا
بدکار رضا خوش ہو ید کا م بھلے ہوں گے
وہ اچھے میاں پیارا اچھوں کا میاں آیا
شبِ غم کاٹ دے میری ، امیدوں کی سحر کر دے
مرے غم کو خوشی کر، میرے عیبوں کو ہنر کر دے
امید و بیم سے گذروں فسونِ وہم سے نکلوں
مجھے اپنی حضوری دے مرا حال دگر کر دے
وہ میرے حال سے واقف ہیں ان کو ہے خبر میری
بھلا کیسے کہوں کوئی انہیں میر ی خبر کر دے
بھلا یہ جان و دل لیکر کہاں جائے گا طیبہ سے
انہیں یا نذر کر یا صدقۂ خیر البشر کر دے
اگر تو چاہتا ہے دوزخ ِ دنیا سے آزادی
مدینہ ہو تیرا گھر ، یہ تمنّا دل میں گھر کر دے
تیری دولت تیرا سایہ غم ، تیرے آنسو ہیں
بہا کر نعت میں نادان ان کو تو گہر کر دے
یہ میری زندگی کا کارواں ، ہے اے خدا ! اس کا
مدینہ جس طرف ہے اس طرف روئے سفر کر دے
جگہ دیدے ادیب ِ خوش نواء کو اپنے قدموں میں
رہی فردِ عمل اس کو جِدھر چاہے اُدھر کر دے
شرف دے حج کا مجھے بَہرِ مصطفٰے یا ربّ
روانہ سُوئے مدینہ ہو قافِلہ یا ربّ
دکھا دے ایک جھلک سبز سبز گُنبد کی
بس اُن کے جلووں میں آجائے پھر قضا یا ربّ
مدینے جائیں پھر آئیں دوبارہ پھر جائیں
اِسی میں عمر گزر جائے یا خدا یا ربّ
مِرا ہو گنبدِ خَضرا کی ٹھنڈی چھاؤں میں
رسولِ پاک کے قدموں میں خاتِمہ یا ربّ
وَقتِ نَزع سلامت رہے مِرا ایماں
مجھے نصیب ہو توبہ ہے التجا یا ربّ
جو “دیں کاکام” کریں دل لگا کے یا اللہ
اُنہیں ہو خواب میں دیدارِ مصطفٰے یا ربّ
تِری محبّت اُتر جائے میری نَس میں
پئے رضا ہو عطا عِشقِ مصطفٰے یا ربّ
زمانے بھر میں مچادیں گے دھوم سنّت کی
اگر کرم نے ترے ساتھ دید یا یاربّ
نَماز و روزہ و حَج و زکٰوۃ کی توفیق
عطا ہو اُمّتِ مَحبوب کو سدا یا ربّ
جواب قبر میں مُنکر نکیر کو دوں گا
ترے کرم سے اگر حوصَلہ ملا یا ربّ
بروزِ حَشر چھلکتا سا جام کوثر کا
بدستِ ساقیِٔ کوثر ہمیں پلا یا ربّ
بقیعِ پاک میں عطّار دَفن ہو جائے
برائے غوث و رضا از پئے ضِیا یا ربّ
شانِ رسالت مولي ڄاڻي ٻئي کي طاقت ناهي
مالڪ جو محبوب محمد ﷺڪونهي ڪنهن کان دور
نبي سائين نور آ نبي سائين نور آ
حضرت يوسفؑ لاءِ هئي هڪڙي زليخان ديواني
پر محبوب محمد ﷺ خاطر هر دل آ مستاني
حُسن حبيب ڪريم کي مولٰي ڏئي ڇڏيو ڀرپور
جڏهن پڙهون ٿا درود سڄڻ تي پان درود ٻڌن ٿا
روضي اطهر پاڪ منجهان ان جو جلد جواب به ڏين ٿا
ڇو نه چوان مان سهڻو محمد ﷺ زنده آهي ضرور
تنهنجو منهنجو هِت هُت حامي حسن حسين جو نانو
مالڪ عطا ڪيو آ جنهن کي غيبي علم جو خزانو
جنهن جي سامهون آ هر هڪ شي ويجهو آ يا دور
سهڻي محمد ﷺ جي آئي ٿي ويون سڀ سڻايون
تون مان ان محبوب جون ويهي اڄ ٿا نعتيون ڳايون
نثار ڪٻر آ هنن جي صدقي ملڪن ۾ مشهور
شاہِ دیوہ نگر جانِ شاہِ اُمم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
صدقۂ پنجتن ہو نگاہِ کرم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
مظہر ذات ہو مُظہر ذات ہو پنجتن کی نشانی ہو سادات ہو
آپ کی ذاتِ اقدس سراپا کرم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
سج رہی شاہِ وارث کی بارات ہے ہیں جمع اولیاء نوری برسات ہے
سب کے دامن بھریں گے خدا کی قسم وارث الاولیاء شاہِ وارث علی
نامِ وارث ہے عنبر وظیفہ مرا اور سلامت رہے وارثی آستاں
میرے وارث ہیں وارث نہیں کوئی غم وارث اولیاء شاہِ وارث علی
شاہِ جیلاں بہ من زار و پریشاں مددے
نورِ عینین نبیﷺ سید و سلطان مددے
ما غریبیم ، غریب الوطنی ہے آقا
چشمِ رحمت بکشا سوئے غریباں مددے
حاضر برورِ پاک تو بصد رنج و الم
اۓ مسیحائے زماں ، عیسیٰٔ دوراں مددے
بر دلِ مُردۂ من یک نظرِ لطف بکن
پیر پیرانِ جہاں مرشد پاکاں مددے
اشرفی آمدِ در حالتِ پیری بہ درت
دستگیری بہ کنی حامیٔ پیراں مددے
شمس الضّحٰی پر لاکھوں سلام
بدر الدّجٰی پر لاکھوں سلام
اعلیٰ تیرا مقام سب انبیاء کا تو ہے امام
کل اولیاء تیرے غلام شمس الضّحیٰ پر لاکھوں سلام
ہے حکمرانی کس شان سے قائم ہے تیرے فیضان سے
دُنیا و دین کا سارا نظام شمسُ الضّحٰی پر لاکھوں سلام
ہر رُخ سے ایمان ہے سُرخرو ظاہر بھی تو ہے باطن بھی تو
دل میں درود اور لب پر سلام شمس الضّحیٰ پر لاکھوں سلام
تیری عطا کی کیا بات ہے ابرِ کرم کی برسات ہے
ردِّ بلا ہے تیرا ہی نام شمس الضّحیٰ پر لاکھوں سلام
سب پل رہے ہیں در سے تیرے سب پارہے ہیں گھر سے تیرے
اس میں نہیں ہے کوئی کلام شمس الضّحیٰ پر لاکھوں سلام
اتنا کرم تو فرمائیے روضے پہ سب کو بلوائیے
حاضر یہاں ہیں جتنے غلام شمس الضّحیٰ پر لاکھوں سلام
انجم کے آقا انجم ہی کیا تیرے بھکاری تیرے گدا
سارے خواص اور سارے عوام شمس الضّحیٰ پر لاکھوں سلام
شاہ ِ کونین جلوہ نُما ہوگیا رنگ عالم کا بالکل نیا ہو گیا
منتخب آپ کی ذاتِ والا ہوئی نامِ پاک آپ کا مصطفٰے ہو گیا
آپ وہ نورِ حق ہیں کہ قُرآن میں وصفِ رُخ آپ کا والضحی ہو گیا
ایسا اعزاز کس کو خدا نے دیا جیسا بالا تیرا مرتبہ ہو گیا
ایسی نافذ تمہاری حکومت ہوئی تم نے جس وقت جو کچھ کہا ہو گیا
نازِ کراے جمیل اپنی قسمت پہ تو خاکِ نعلین احمد رضا ہو گیا ۔
شاہِ مدینہ سَرورِ عالم ﷺ
تم پہ نچھاور تم پہ فدا ہم ﷺ
نورِ شبِ معراج تمہی ہو نبیوں کے سرتاج تمہی ہو
حُسن کے پیکر نور مجسم ﷺ
دی ہے شجر نے آکے گواہی، کنکریوں نے کلمہ پڑھا ہے
سَرورِدیں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
مجبور و بے کس کے والی ،خالی گیا کوئی نہ سوالی
آپ کے دَر پر دُور ہوئے غم صلی اللہ علیہ ٖ وسلم
گل میں ان کی رنگ و بو ہے چرچا ان کا چار سُو ہے
جگمگ اُ ن کے نور سے عالَم صلی اللہ علیہ وسلم
مشک و گلاب پسینہ اُن کا، خطۂ پاک مدینہ اُن کا
روضہ اُن کا عرش سے اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
تشنہ لبوں کو ساغرِ کوثر بخشیں گے وہ یوم ِمحشر
میٹنے والے اُمت کے غم صلی اللہ علیہ وسلم
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
طیبہ کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
نیلے فلک کی چادر تنی ہے
تو اگر نہ ہوتا دنیا تھی خالی
جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
آباد عالم تیرے ہی کر م سے
باقی ہر ایک شے ہے نقش ِ خیالی
تو نے جہاں کی محفل سجائی
تاریکیوں میں شمع جلائی
کند ھے پہ تیرے کملی ہے کالی
مذہب ہے تیرا سب کی بھلائی
مسلک ہے تیرا مشکل کشائی
دیکھ ا پنی اُمت کی خستہ حالی
ہے نور تیرا شمس و قمر میں
تیرے لبوں کی لالی سحر میں
پھولوں نے تیری خوشبو چرا لی
کعبہ کا کعبہ تیرا ہی گھر ہے
تیرے کرم پہ سب کی نظر ہے
دکھلا دے ہم کو در بار ِ عالی
ہیں آپ دکھیوں کے آقا سہارے
تاج شفا عت ہے سر پہ تمہارے
ہم کو عطا ہو روضے کی جالی