عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جانِ مراد اب کدھر ہائے ترا مکان ہے

بزم ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے

عرش پہ جاکے مرغ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دَھام
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے

اک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

گود میں عالم شباب حال شباب کچھ نہ پوچھ
گلبنِ باغ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے

تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تچھی کو بھول جایئں دل یہ تیرا گمان ہے

پیش نطر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے

شان خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تازمیں جسے نرم سی اِک اُران ہے

بار جلال اُٹھا لیا گر چہ کلیجا شق ہوا
یوں تو یہ ماہِ سبزہ رنگ نظروں میں دھان پان ہے

خوف نہ رکھ رضا ذراتو ،تو ہے عبد مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے،تیرے لئے امان ہے

Poet :Imam Ahmad Raza Brailvi

No comments yet

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولؐ

کہاں کہاں لئے پھرتی ہے جستجوئے رسول

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزوئے رسولؐ

خوشا وہ آنکھ جو ہو محو حسن روئے رسول

تلاش نقش کف پائے مصطفیٰ کی قسم

چنے ہیں آنکھوں سے ذرات خاک کوئے رسول

پھر ان کے نشۂ عرفاں کا پوچھنا کیا ہے

جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول

بلائیں لوں تری اے جذب شوق صل علیٰ

کہ آج دامن دل کھنچ رہا ہے سوئے رسولؐ

شگفتہ گلشن زہرا کا ہر گل تر ہے

کسی میں رنگ علی اور کسی میں بوئے رسولؐ

عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدمؔ

کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رو بروئے رسول

No comments yet

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا

بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا

فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی

مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا

کشفِ   رازِ   مَن    رَّاٰنی    یوں    ہوا

تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا

بیخودی ہے باعثِ کشفِ ِحجاب

مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا

ان کے دَر نے سب سے مستغنی کیا

بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا

ناخدائی کے لئے آئے حضور

ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا

دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا

نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا

آنکھیں پر نم ہو گئیں سر جھک گیا

جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا

خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن

مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا

ہے محبت کس قدر نامِ خدا

نامِ حق سے نامِ والا مل گیا

ان کے طالب نے جو چاہا پالیا

ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا

تیرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب

مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا

اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب

ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا

No comments yet

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ مین آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے

بزمِ ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے

عرش پہ جا کے مرغِ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دَھام
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے

اِک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ !
گلبن ِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے

تجھ سا سیاہ کار کون اُ ن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان

پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے

شان ِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اڑان ہے

بارِ جلال اٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہُوا
یوں تو یہ ماہِ سبزۂ رنگ نظروں میں دھان پان ہے

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عَبد مصطفٰے
تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے

No comments yet

عِشق مولٰی میں ہو خوں بارکنارِ دامن
یا خدا جَلد کہیں آئے بہارِ دامن

بہ چلی آنکھ بھی اشکوں کی طرح دامن پر
کہ نہیں تار نظر جز دو سہ تارِ دامن

اشک برساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیم
یا خدا جلد کہیں نکلے بخارِ دامن

دل شدوں کا یہ ہوا دامنِ اطہریہ ہجوم
بیدل آباد ہوا نام دیارِ دامن

مشک سا زلف شہ و نور فشاں روئے حضور
اللہ اللہ حلبِ جیب و تتارِ دامن

تجھ سے اے گل میں سِتم دیدۂ دشتِ حرماں
خلش دل کی کہوں یا غمِ خارِ دامن

عکس افگن ہے ہلالِ لبِ شہ حبیب نہیں
مہر عارض کی شعا عیں ہیں نہ تارِ دامن

اشک کہتے ہیں یہ شیدائی کی آنکھیں دھوکر
اے ادب گردِ نظر ہو نہ غبار ِ دامن

اے رضا آہ وہ بلبل کہ نظر میں جس کی
جلوہ ٔ جیب گل آئے نہ بہارِ دامن

No comments yet

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں

جا بجا پر تو فگن ہیں آسماں پر ایڑیا ں
دن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں

نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤں
عرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں

دب کے زیرپا نہ گنجایش سمانے کو رہی
بن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں

ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاج
جس کی خاطر مر گئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں

دو قمر دو پنجۂ خور دوستارے دس ہلال
ان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں

ہائے اس پتھر سے اس سینہ کی قِسمت پھوڑیے
بے تکلف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں

تاج رُوح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں

ایک ٹھوکر میں احد کا زلزلہ جَاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں

چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آگئی
کر چکی ہیں بدر کو ٹکال باہر ایڑیاں

اے رضا طوفان محشر کے طلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو ہیں کشتی ِ امّت کو لنگر ایڑیاں

No comments yet

عشقِ شہِ کونین میں دل داغ جگر داغ
گلزارِ محبّت کی ہے شاخوں پہ ثمر داغ

لکھتا ہوں شبِ ہجر میں جب نعت نبی کی
تحریر کے نقطے مجھے آتے ہیں نظر داغ

کوڑی کے کوئی مول نہ لے لعلِ بدخشاں
جو ہجرِ مدینہ کے دکھاؤں میں اگر داغ

دیکھا جو نظر بھر کے سوئے گنبدِ خضرا
بعد اس کے نظر آئے مجھے شمس و قمر داغ

اِک میں ہی نہیں ہجر میں ، افلاک کا عالم
دیکھو تو نظر آئیں گے تا حدّ نظر داغ

اِس جسد میں کچھ قلب و نظر پر نہیں موقوف
آقا کی عنایت سے ہے سب گھر کا یہ گھر داغ

ہر داغ کو ہے نورِ عَلیٰ نوُر کی نسبت
الماس کوئی داغ، کوئی مثلِ گہر داغ

خورشیدِ محبّت کی طمازت سے پگھل کر
بن جاتا ہے عشّاق کے سینوں میں جگر داغ

بخشش کا سہارا ہے شفاعت کی سند ہے
کہنے کے لیے لفظ بیاں میں ہے اگر داغ

جس داغ کو عشقِ شہِ ولا سے ہے نسبت
ظلمت کے ہر عالم میں ہے وہ نُورِ سحر، داغ

دھوتے ہیں گناہوں کی سیاہی کے یہ دھبّے
اُلفت میں دکھاتے ہیں کبھی یہ بھی ہُنر داغ

رکھتا تھا ادیب اپنی جبیں در پہ جُھکا ئے
دھوتا تھا گناہوں کے وہاں شام و سحر داغ

No comments yet

عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے

ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے

جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے

روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے

دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے

ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے

ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے

ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے

ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے

No comments yet

عمل کا ہو جذبہ عطا یا الٰہی
گُناہوں سے مجھ کو بچا یا الٰہی
میں پانچوں نَمازیں پڑھوں با جماعت
ہو توفیق ایسی عطا یا الٰہی

میں پڑھتا رہوں سنّتیں، وَقت ہی پر
ہوں سارے نوافِل ادا یا الٰہی

دے شوقِ تلاوت دے ذَوقِ عبادت
رہوں باوُضو میں سدا یا الٰہی

ہمیشہ نگاہوں کو اپنی جھکا کر
کروں خاشِعانہ دُعا یا الٰہی

نہ “نیکی کی دعوت” میں سُستی ہو مجھ سے
بنا شائقِ قافِلہ یا الٰہی

سعادت ملے درسِ “فیضانِ سُنّت”
کی روزانہ دو مرتبہ یا الٰہی

میں مِٹّی کے سادہ برتن میں کھاؤں
چٹائی کا ہو بسترا یا الٰہی

ہے عالِم کی خدمت یقینًا سعادت
ہو توفیق اِس کی عطا یا الٰہی

“صدائے مدینہ” دوں روزانہ صَدقہ
ابو بکر و فاروق کا یا الٰہی

میں نیچی نگاہیں رکھوں کاش اکثر
عطا کر دے شَرم و حیا یا الٰہی

ہمیشہ کروں کاش پردے میں پردہ
تُو پیکر حیا کا بنا یا الٰہی

لباس سُنّتوں سے ہو آراستہ اور
عِمامہ ہو سر پر سجا یا الٰہی

سبھی مُشت داڑھی و گَیسو سجائیں
بنیں عاشقِ مصطفٰے یا الٰہی

ہر اِک انعام کاش! پاؤں
کرم کرپئے مصطَفٰے یا الٰہی

ہو اخلاق اچّھا ہو کردار سُتھرا
مجھے متقی تو بنا یا الٰہی

غصیلے مِزاج اور تمسخر کی خَصلت
سے عطار کو تُو بچا یا الٰہی

No comments yet

علیک السلام اے امین الٰہی
کہا جو خدا نے وہ تو نے سنایا

علیک السلام اے رفیع المدارج
کسی نے نہیں تیرے رتبے کو پایا

علیک السلام اے ستودہ خصائل
فدا خلق پہ تیرے اپنا پرایا

علیک السلام اے امانِ دو عالم
تیرا دامن لطف ہے سب پہ چھایا

علیک السلام اے محبِ غریباں
ترے علم نے بارِ اُمت اُٹھایا

علیک السلام اے تجھے ذاتِ حق نے
جو مرسل بنایا تو آخر دکھایا

علیک السلام اے شہنشاہِ وحدت
کہ توحید کا تونے سکہ بٹھایا

علیک السلام اے طبیبِ نہانی
دلوں میں جو تھے روگ سب کو مٹایا

علیک السلام اے سوارِ سبک رو
کسی نے تری گرد راہ کو نہ پایا

علیک السلام اے ہدایت کے مرکز
تجھے حق نے انسان کامل بنایا

Poet :مولانا اسماعیل میرٹھی

No comments yet

عشق جس کو بھی مصطفٰےسے ہے
بس وہی آشنا خدا سے ہے

صرف اتنا ہی جانتا ہوں میں
میری پہچان مصطفٰےسے ہے

وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں آپ
زندگی آپ کی عطا سے ہے

دَہر میں اس کو کیا کمی جس کا
رَابِطہ شہہِ دو سَرا سے ہے

وہ در ِمصطفٰے پہ جھک جائے
خوف جس کو کسی سزا سے ہے

ان کا مؔنظور سے ہے ربط یہی
جو سخی کا کسی گدا سے ہے

No comments yet

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا

فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی؟
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا

ان کے در نے سب سے مستغنیٰ کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا

ناخدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتو! نکلو سہارا مل گیا

آنکھیں پر نم ہوگئیں سر جھک گیا
جب تِرا نقشِ کفِ پا مل گیا

خُلد کیسی ؟ کیا چمن؟ کس کا وطن؟
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا

ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا

تِرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانہ مل گیا

اۓ حؔسن فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا

No comments yet