نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ زیشان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمندان گیا

لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ میرے آقا تیرے قربان گیا

آہ وہ آنکھ کہ ناکام تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا

انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

اور تم پرمرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصّب آخر
بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

Poet :Imam Ahmad Raza Brailvi

No comments yet

نبیوں کے نبی
اُمّی لقبی
کونین کے والی
میں تیرا سوالی
کر مجھ کو عطا
تھوڑی سی ضیا
تارے تیرے موتی
چندا تیری تھالی

یہ کس نے کہا
سایہ ہی نہ تھا
مجھ کو نظر آیا
ہر سُو تیرا سایا
جو تیرا ہوا
رب اس کا ہوا
پائی ہے خُدائی
جس نے تجھے پایا
اے سَرودِ دیں
شب جس کی نہیں
بانٹے وہ سویرا
کملی تیری کالی

ساقی میرا تو
بھر میرا سُبو
دریا ہوں کہ جھیلیں
سب تیری سبیلیں
خورشیدِ حرا
ٹھوکر سے گِرا
آہوں کی طنابیں
دُوری کی فصیلیں
فردوس میرا
روضہ ہے تیرا
پلکوں میں پرو دے
دِیوار کی جالی

محبوبِ خُدا
اے نُورِ ھُدا
چمکے میرا سینہ
بن جائے مدینہ
کرتی ہے انا
اب تیری ثنا
اس پار لگا دے
لفظوں کا سفینہ
رکھ میرا بھرم
دے شاہِ اُمم
حسّان کی نظریں
آوازِ بلالی

بس ایک یہی
حسرت ہے میری
دل موت سے پہلے
کچھ تجھ سے بھی کہ لے
بھڑکے جو طلب
ہو درد عجب
اب تیرا مظفر
یادوں سے نہ بہلے
رحمت کی نظر
ہو جائے اگر
بن جائے گلستاں
سُوکھی ہوئی ڈالی

Poet :Muzaffar Warsi

No comments yet

نبی کا نام جب میرے لبوں پر رقص کرتا ہے

لہو بھی میرے شریانوں کے اندر رقص کرتا ہے

 

میری بے چین آنکھوں میں جب وہ تشریف لاتے ہیں

مصور ان کے دامن سے لپٹ کر رقص کرتا ہے

 

وہ صحراؤں میں بھی پانی پلا دیتے ہیں پیاسوں کو

کہ ان کی انگلیوں میں بھی سمندر رقص کرتا ہے

 

پڑے ہیں نقش پائے مصطفیٰؐ کے ہار گردن میں

جبھی تو روح لہراتی ہے پیکر رقص کرتا ہے

 

زمین و آسماں بھی اپنے قابو میں نہیں رہتے

تڑپ کر جب محمد کا قلندر رقص کرتا ہے

 

لگی ہے بھیڑ اس کے گرد یہ کیسی فرشتوں کی

یہ کس کا نام لے لے کر مظفرؔ رقص کرتا ہے

Poet :Muzaffar Warsi

No comments yet

نسیما جانب بطحا گذر کن
ز احوالم محمد را خبر کن

توئی سلطان عالم یا محمد
زروئے لطف سوئے من نظر کن

بہ برایں جان مشتاقم بر آں جا
فدائے روضۂ خیرالبشر کن

مشرف گر چہ شد جامیؔ زلطفش
خدایا ایں کرم بارے دگر کن

No comments yet

نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں

میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں

مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت

ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں

بہت بدلے مرے انداز لیکن

جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں

وجود غیر ہو کیسے گوارا

تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں

نہ جانے کون سی منزل ہے واصفؔ

جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں

No comments yet

نام ربِ انام ہے تیرا
ہر جگہ فیض عام ہے تیرا
 
لامکانی ہے تیرا وصف مگر
قلبِ مومن مقام ہے تیرا
 
تو ہی خالق ہے تو ہی مالک ہے
جو بھی کچھ ہے تمام ہے تیرا
 
تیری مرضی کبھی نہیں ٹلتی
کتنا کامل نظام ہے تیرا
 
جو ہے مشکل کشا بہر عالم
میرے مولا وہ نام ہے تیرا
 
تجربوں نے یہی بتایا ہے
مہربانی ہی کام ہے تیرا
 
لبِ خالد کی جاگ اُٹھی قسمت
تذکرہ صبح و شام ہے تیرا

No comments yet

نہ عرشِ ایمن نہ اِنّی ْ ذاہبٌ میں مہمانی ہے
نہ لطف اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیب لَنْ تَرَانِی ہے

نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے
خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زِندگانی ہے

اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں
اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے

ہر اِک دیوار و دَر پر مہر نے کی ہے جبیں سائی
نگارِ مسجد ِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے

تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی
زبانِ بے زبانی ترجمان ِ خستہ جانی ہے

کھلے کیار از ِ محبوب و محب مستانِ غفلت پر
شراب قَدرَای الحق زیبِ جامِ مَنْ رَاٰنِی ہے

جہاں کی خاکروبی نے چمن آرا کیا تجھ کو
صبا ہم نے بھی اُن گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے

شہا کیا ذات تیری حق نما ہے فردِ امکاں میں
کہ تجھ سے کوئی اوّل ہے نہ تیرا کوئی ثانی ہے

کہاں اس کو شکِ جانِ جناں میں زَر کی نقاشی
اِرم کے طائرِ رنگِ پَریدہ کی نشانی ہے

ذِیابٌ فی ثِیابٌ لب پہ کلمہ دِل میں گستاخی
سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے

یہ اکثر ساتھ اُن کے شانہ و مسواک کا رہنا
بتاتا ہے کہ دل ریشوں پہ زائد مہربانی ہے

اسی سرکار سے دنیا و دیں ملتے ہیں سائل کو
یہی دربارِ عالی کنز آمال و امانی ہے

درو دیں صورتِ ہالہ محیط ِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امّت ِ عاصِی پہ اب رحمت کا پانی ہے

تعالیٰ اللہ استغنا ترے در کے گداؤں کا
کہ ان کو عار فرو شوکت ِ صاحب قِرانی ہے

وہ سر گرمِ شفاعت ہیں عرق افشاں ہے پیشانی
کرم کا عطر صَندل کی زمیں رحمت کی گھانی ہے

یہ سر ہوا ور وہ خاکِ در وہ خاکِ در ہو اور یہ سر
رضا وہ بھی اگر چاہیں تو اب دل میں یہ ٹھانی ہے

No comments yet

نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِی ہے
وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا رؤف و رحیم و علیم و علی ہے
ہے بیتاب جس کے لیے عرشِ اعظم وہ اس رہر وِ لا مکاں کی گلی ہے
نکیرین کرتے ہیں تعظیم میری فدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے
طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے
نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبی اَغِثْنِیْ اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے
صَبا ہے مجھے صر صر ِ دشتِ طیبہ اسی سے کلی میرے دل کی کِھلی ہے
تِرے چاروں ہمدم ہیں یک جان یک دل ابو بکر فاروق عثمان عَلی ہے
خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے
کروں عرض کیا تجھ سے اے عالمِ السِّر کہ تجھ پر مری حالتِ دل کھلی ہے
تمنّا ہے فرمائیے روزِ محشر یہ تیری رہائی کی چٹھی ملی ہے
جو مقصد زیارت کا برآئے پھر تو نہ کچھ قصد کیجیے یہ قصدِ دلی ہے
ترے درکا دَر باں ہے جبریل اعظم ترامدح خواں ہر نبی و ولی ہے
شفاعت کرے حشر میں جو رضا کی
سِوا تیرے کس کو یہ قدرت ملی ہے

No comments yet

نازِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
ظلمتِ حشر کو دِن کر دے نہارِ عارض

میں تو کیا چیز ہوں خود صاحب ِ قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض

جیسے قرآن ہے وِرد اس گلِ محبوبی کا
یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقارِ عارض

گرچہ قرآں ہے نہ قرآں کی برابر لیکن
کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مدح نگارِ عارض

طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلوۂ گرم
آپ عارض ہو مگر آئینہ دارِ عارِض

طرفہ عالم ہے وہ قرآن اِدھر دیکھیں اُدھر
مصحفِ پاک ہو حیران بہارِ عارض

ترجمہ ہے یہ صفت کا وہ خود آئینہ ذات ہے
کیوں نہ مصحف سے زیادہ ہو وقارِ عارض

جلوہ فرمائیں رخِ دل کی سیاہی مٹ جائے
صبح ہو جائے الٰہی شبِ تارِ عارض

نامِ حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں
حق کرے عرش سے تافرش نثارِ عارض

مشک بو زلف سے رُخ چہرہ سے بالوں میں شعاع
معجزہ ہے حلبِ زلف و تتارِ عارض

حق نے بخشا ہے کرم نذرِ گدایاں ہو قبول
پیارے اک دِل ہے وہ کرتے ہیں نثار ِ عارض

آہ بے مایگی دل کہ رضائے محتاج
لے کر اِک جان چلا بہر نثارِ عارض

No comments yet

نہ آسماں کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا حضورِ پاک مدینہ خمیدہ ہونا تھا
اگر گلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھا کنار ِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا

حضور اُن کے خلاف ادب تھی بیتابی مِری امید تجھے آرمید تجھے آرمیدہ ہونا تھا
نظارہ خاکِ مدینہ کا اور تیری آنکھ نہ اسقدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا

کنارِ خاکِ مدینہ میں راحتیں ملتیں دلِ حزیں تجھے اشک چکیدہ ہونا تھا
پناہ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتا نہ صبر ِ دل کو غزال ِ رمیدہ ہونا تھا

یہ کیسے کھلتا کہ انکے سوا شفیع نہیں عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا
ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کو سلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا

لَاََ مْلئَن َّ جہَنَّم َ تھا و عدہ ٔ ازلی نہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہوناتھا
نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا

ٹپکتا رنگِ جنوں عشقِ شہ میں ہر گل سے رگِ بَہا ر کو نشتر رسیدہ ہونا تھا
بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا

گزرتے جان سے اِک شور‘‘یا حبیب کے ’’ ساتھ فغاں کو نالۂ حلق بریدہ ہونا تھا
مِرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر کوئی تو شہد ِ شفاعت چشیدہ ہونا تھا

جو سنگ در پہ جبیں سائیوں میں تھا مِٹنا تو میری جان شرارِ جہیدہ ہونا تھا
تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہو ں کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہونا تھا

رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قیدِ خودی سے رہیدہ ہونا تھا

No comments yet

نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے

گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ

بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی

ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے

زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم

No comments yet

نگاہ ہو کہ سماعت زبان ہو کہ قلم
چلے ہیں قافلہ مدح میں قدم بقدم
کبھی زبان کا دعوٰی کہ ہم ہیں بر تر ہم
کبھی قلم کی یہ غیرت کہ ہم سے سب ہیں کم
یہ معرکہ بھی تو وجہِ حصولِ سبقت ہے
حصول سبقت مدحت بھی حُسنِ مدحت ہے

قلم نے کھینچ دیے نقش وہ کہ سب حیراں
زباں نے دل سے نکالے خطاب کے ارماں
سُنا رہا ہوں اسی معرکہ کی بات یہاں
کہ جس کے نقطے ستارے تو لفظ کا ہ کشاں
سماعتوں کو جو لے جائے حوضِ کوثر تک
سُرور جس کا رہے دل میں روزِ محشر تک

چلا ہے آج قلم سایۂ کرم لے کر
گداز دل کا ، تڑپ اور چشمِ نم لے کر
شعور وفکر کا ہاتھوں میں جامِ جم لے کر
خیالِ سرورِ کونین محترم لے کر
رواں براق کی مانند ہے سیاہی میں
فرشتے آئے ہیں افلاک سے گواہی میں

زباں کُھلی کے پھریرا کُھلا ہے رحمت کا
ہر ایک سمت ہوا غُل اذانِ اُلفت کا
نماز عشق کا اور سجدہ محبت کا
سرورِ جاں ہے جو سب کا اسی کی مدحت کا
سماعتوں کا یہ عالم کہ گوش، بر آواز
مرے رسول کی مدحت کا یوں ہوا آغاز

جُھکا کہ رب دو عالم کے پیش اپنی جبیں
کہا قلم نے کہ خلّاقِ آسمان و زمیں
رقم ہو تیرے نبی کا بیان اتنا حَسیں
کہ حرف حرف ستارہ تو نقطہ نقطہ نگیں
زمیں پہ شور تو ہلچل ہو آسمانوں میں
فرشتے چُوم کے بادھیں اسے عماموں میں

بڑے ادب سے زباں نے یہ عرض کی یار ب
ادا ہو مجھ سے بھی اپنے بیان کا منصب
مری صدا ہو رواں جیسے نُور کا مرکب
فلک پہ آئے نظر جیسے رات میں کوکب
کہ ہے نبی سمیع و بصیر کی توصیف
خبر جو غیب کی دے اس خبیر کی توصیف

کہا قلم نے کہ تحریر میری لاثانی
خیال لفظوں میں ایسا کہ یوسفِ ثانی
تمام حرف گماں یہ کہ، لعل رمانی
ہر اِک سطر ہے مری کہکشاں کی پیشانی
مری سیاہی گناہوں کو دھونے والی ہے
سیہ ضرور ہوں لیکن صفت بلالی ہے

زبان یہ بولی کہ میں آج ہوں طرب مانوس
ہے شوق رقص میں میرے بیان کا طاؤس
حَسیں خیالوں سے روشن ہیں جا بجا فانوس
سنے جو خار بیاباں تو رنگ و بو میں ڈھلے
تیرے حبیب کا وہ ذکر ہو کہ تو بھی سنے

قلم نے کہ میں ہر بیان کا ملبوس
مری خموشی ہے الفت کا نالۂ ناقوس
ثنائے سرورِ کونین کا ہوں میں فانوس
یہ خدوخال ہیں میرے ہی لوح پر منقوش
سفید پر میں سیاہی کا داغ ہوتا ہوں
پر عاشقوں کے دلوں کا چراغ ہوتا ہوں

کہا زباں نے کہ رعنائی میں نے کی ہے کشید
مری نواء سے ہی بوئے خطاب کی ہے شمید
کہیں سرودِ بلاغت، کہیں فصیح نشید
کھلیں نہ پر مرے، پرواز کیا کرے گی شنید
ہر اِک زماں میں فضائیں یتیم، میرے بغیر
کلام کس کو سنائیں کلیم میرے بغیر

سنا جو روزِ بیانِ مدیحِ شاہِ اُمم
جھکا ادب سے ہمیشہ کی طرھ فرق قلم
رقم طراز ہوا، اے خدا! تیری ہے قسم
ازل سے وصفِ نگارِ حضور ہوں پیہم
گناہ گار نہیں ڈوب کر سیاہی میں
ہر ایک نعت ہے میری اسی گواہی میں

میں کھینچ لاؤں گا فن کا ہر اِک سطر میں کمال
حصارِ خط میں حسینانِ رنگ و بو کا جمال
لکھوں گا جب میں سلیمان نعت کا احوال
ہمیں بھی اذن دو ، بلقیس ِ فن کرے گی سوال
نبی کا فیض ہے ، فیض و کمال پر ہے گرفت
رہِ فراز نہ دوں گا، خیال پر ہے گرفت

ازل سے تا بہ ابد لوح پر نوشتہ میں
کہیں پہ حال ہوں اور ہوں کہیں گزشتہ میں
ہوں دستِ کاتبِ تقدیر میں نشستہ میں
ثناء کے وصف سے ہم رتبہ فرشتہ میں
میں اپنے رنگ میں رنگِ غلاف کعبہ ہوں
رُخ ِ بلال و گلیمِ رسولِ بطحا ہوں

یہ معرکہ جو سنا، غیب سے صدا آئی
ہر اِک چمن میں انہیں کی ہے جلوہ فرمائی
فقط قلم ہی نہیں ان کا ایک شیدائی
فقط زباں کو ہی حاصل نہیں ہے یکتائی
شجر حجر ہوں مہ و مہر موں زبان و حروف
وجود جن کو ملا سب ثناء میں ہیں مصروف

زباں کو نطق دیا کُل کی آبرو کے لیے
میرے حبیب کو آنا تھا گفتگو کے لیے
قلم بنا اسی تحریرِ مشکِ بو کے لیے
ہر اِک زمانہ میں اسلام کی نمو کے لیے
رسا ہو آدم خاکی کہ دل میں تم دونوں
میرے حبیب کی جو یاد میں گُم دونوں

No comments yet

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرّ عَیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آب ِگوہر کمر کمر تھا
صَفائے رَہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحر ِوحدت کہ دُھل گیا نام ِریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بُلبلے تھے
وہ ظِلِّ رَحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے
سنہری زَرْبَتْت اُودی اَطلَس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چَلا وہ سَرو ِچماں خِراماں نہ رُک سکا سدْرَہ سے بھی داماں
Qaseeda-e-meraj part/6

No comments yet

نیک عملاں تے مان ہے نیکو کاراں نوں
سرکار دابو ہا کافی اَوگن ہاراں نوں

گلی پاک حلیمہ دی سی ککھاں دی قدم رکھیا سرکار نے ہوگئی لکھاں دی
اَگ لاواں میں سارے محل چوباراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
جد سرکار دے شہر مدینے جاواں گا جالی پاک نوں رج رج سینے لاواں گا
لکھ لکھ تَر لے کرساں پہر ے داراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
در در جاون والے دھکے کھاون گے بے قدرے تے قدراں فیر نہ پاون گے
در دی توں سمجھالے اپنے یاراں نوں سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں
سرکار دا بوہا کافی اَوگن ہاراں نوں

No comments yet

نمی دانم کہ آخر چوں دم ِ دیدارمی رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوق کہ پیش یارمی رقصم

تو آں قاتل کہ ازبہرِ تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

خوشارندی کے پاماش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من بہ جبہ و دستار می رقصم

منم عثمان مروندی کہ یارِ شیخ منصورم
ملامت می کند خلق و من برادرم رقصم

No comments yet

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بَہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم

پری پیکر نگارِ سَروقدِّ لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود شب جائے کہ من بودم

رقیباں گوش بر آواز ِاُو در ناز و من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بو د شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر ِمجلس بود اندر لا مکاں خؔسرو
محمد ﷺشمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم

No comments yet

نسیما !جانبِ بطحا گزرکن
زِ ا َحوالم محمدﷺ ر اخبر کن

توئی سلطانِ عالم یا محمد!ﷺ
زروئے لطف سوئے من نظر کن

بسر ایں جانِ مشتاقم در آں جا
فدائے روضۂ خیر البشر کن

مشرف گرچہ شد جاؔمی ز لطفش
خدایا !ایں کرم بارِ دگر کن

No comments yet

نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے
جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیب کی بات ہے

جسے چاہا در پہ بلا لیا ،جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے

وہ بھٹک کے رَاہ میں رِہ گئی، یہ مچل کے در سے لپٹ گئی
وہ کسی امیر کی شان تھی، یہ کسی غریب کی بات ہے

میں بُروں سے لاکھ براسہی مگر اُن سے ہے مِرا واسطہ
مِری لاج رکھ لے مِرے خدا ،یہ تِرے حبیب کی بات ہے

تجھے اۓ مؔنوّر بے نوا درشہ سے چاہیے اور کیا
جو نصیب ہو کبھی سامنا تو بڑے نصیب کی بات ہے

No comments yet

نور والا آیا ہے
نور لے کر آیا ہے

سارے عالم میں دیکھو کیسا نور چھایا ہے
الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ

جب تلک یہ چاند تارے جِھلمِلاتے جائیں گے
تب تلک جشنِ ولادت ہم مناتے جائیں گے

نعتِ محبوب خدا سُنتے سناتے جائیں گے
یا رسول اللہ نعرہ ہم لگا تے جائیں گے ۔

چار جانب ہم دیے گہی کے جلاتے جائیں گے
گھر تو گھر ہم سارے محلّے کو سجاتے جائیں گے

عید میلاد النبی کی شب چراغاں کر کے ہم
قبر، نور ِ مصطفٰے سے جگمگاتے جائیں گے

تم کرو جشنِ ولادت کی خوشی میں روشنی
وہ تمہاری گورِ تیرہ جگمگاتے جائیں گے

No comments yet