وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے سَاماں عرب کے مہماں کے لئے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے

اُتار کے اُن کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہاتھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وہی تو اب تک چھلک ہرا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے

بچا جو تلو وں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنھوں نے دولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے

اُٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے

محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چَکر میں دائرے تھے

حجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ دصل و فرقت جنم کہ بچھڑے گلے ملے تھے

وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اس کی طرف گئے تھے

کمان امکاں کے جھوٹے نقطوں تم اّول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

نبیِ رحمت شفیعِ اُمت رضؔا پہ للہ ہو عنائت
اُسے بھی ان خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سَرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیے تھے

Poet :Imam Ahmad Raza Brailvi

No comments yet

واہ کیا جودو کرم ہے شہہ بطہا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانے
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

آسماں خوان زمیں خوان زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا تیرا تیرا

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ مالک کہ حبیب
یعنی محبوب محب میں نہیں میرا تیرا

تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھایئں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑے دیکھ کہ تلوہ تیرا

چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڈلہ بیٹا تیرا

Poet :Imam Ahmad Raza Brailvi

No comments yet

وہ سب کا مالک ہے جس کا عرش معلیٰ

اللہ ہی اللہ ہے بس یارو اللہ ہی اللہ

 

ذہن و دل سے ایک پردہ سا ہٹتا جائے

اوراق روز و شب و وقت پلٹا جائے

 

دریا صحرا سورج چاند ستارے اس کے

منظر اور رتیں اس کی ہم سارے اس کے

 

اپنی پونجی اک پیشانی ایک مصلیٰ

اللہ ہی اللہ ہے بس یارو اللہ ہی اللہ

 

دیکھ رہا ہوں میں اپنا انجام مظفرؔ

میرے تن پر ہے پیلا احرام مظفرؔ

 

پاؤں کے انگوٹھے میں ہے لوہے کا چھلا

اللہ ہی اللہ ہے بس یارو اللہ اللہ

Poet :Muzaffar Warsi

No comments yet

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا

کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا

ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا

کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا

نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں

اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں

اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں

فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں

خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں

روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں

کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی

تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی

کیا بتاؤں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی

ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال

یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے ماہ و سال

اب بڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال

تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے

اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے

چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے

کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے

تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب

منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب

یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے

کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے

ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے

دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے

تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع

کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع

پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا

یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا

در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا

اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا

نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا

ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا

تجھ سے جو پھیر کے منہ ، جانب قران گیا

سرخرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا

کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا

لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا

مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا

محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی

دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی

روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی

آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی

ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا

تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا

تیری دہلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا

یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا

سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا

دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام

ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام

ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام

انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام

للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی

شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی

گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی

نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

بام مقصد پر تمناؤں کے زینے پہنچے

لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے

جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے

جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے

تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

No comments yet

وصفِ رُخ اُن کیا کرتے ہیں شرح والشمس و الضحٰے کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں

ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کا نپ کر مہر کی رجعت دیکھو
مصطفٰے پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں

تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا ء میں تارے
انبیاء اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں

اے بلا بیخردی کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو دَر کا ر بے زباں بول اٹھا کر تے ہیں

اپنے مولٰی کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

رفعت ذکر ہے تیرا حِصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
انگلیاں پائیں وہ پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں

آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
گرنے والوں کو چَہ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں

جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کِھلکِھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نِکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں

تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولٰی سے شہِ عرش ایواں تیر ی دولت کی د عا کرتے ہیں
جن کے جلوے سے اُحد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں

کیوں نہ زیبا ہو تجھے تا جوری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں

ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپا کرتے ہیں

لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منہ میں گھل جاتا ہے شہدِ نا یاب
وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

لب پہ کس منہ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دِل ہے الم جس کا سنائیں
ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے دَر پر جو مٹا کرتے ہیں

اپنے دل کا ہے انہیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انہیں کو سب کام
لو لگی ہے کہ اب اس دَر کے غلام چارۂ دردِ رضا کرتے ہیں

No comments yet

وہ کمال ِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھوان نہیں

دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ِ ٔ دل وجاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کِس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقرر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

کرے مصطفٰے اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ! ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہدو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نِکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں

ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں

وہ ہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انہیں سے سب ہے انہی کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں

ترا قد تو نادرِ دہرے کوئی مِثل ہو تو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن سر وچماں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اِس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں

No comments yet

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو ترے در سے یار پھر تے ہیں در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کیے ہم نے آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر خیلِ لیل و نہار پھر تے ہیں
ہر چَراغ ِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہیں جان کیا نظر آئے کیوں عَدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کام خدمت پر لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہر کارے پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم مول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافِر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے رات آئی گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتنے ہزار پھرتے ہیں

No comments yet

وہ مطلع پیش کرتا ہوں میں توصیفِ محمد میں
جو نازل ہو رہا ہے قلب پر، انوار کی زد میں

بیاں کیسے ہو کتنا حُسن ہے ہر خال میں خد میں
جمالِ حق تعالیٰ جب ہوا موزوں اسی قد میں

نہ ہو کیوں حمد پر کرسی نشیں اِک میم شہ بن کر
کہ ایسا دلربا کوئی نہیں تھا شہرِ أبجد میں

ثنائے مصطفٰے میں یوں مجھے محسوس ہوتا ہے
کھڑا ہوں خوشبوؤں اور رنگ کے بارانِ بیحد میں

کشادِ لب خداوند یہی دو لفظ ہوں میرے
اِک انکے لطف بے حد پر اِک ان کے حُسن بیحد میں

قضا آئے دیارِ مصطفٰے میں مدح خوانوں کی
کفن میں لاش ہو، اور لاش ہو دربارِ احمد میں

جنازے میں ہوں قدسی، پیشِ قدسی مصطفٰے خود ہوں
قصیدہ پڑھ رہی ہو لاش میری شہ کی آمد میں

پڑھیں صَل عَلٰی اِرْحَم لَنَا اِرْحَم لَنَا سارے
اتاریں جب ادیبِ خوش بیاں کو لوگ مرقد میں

No comments yet

وہ سَرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عَنا دل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اِدھر سے انوار ہنستے آتے اُدھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی

No comments yet

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھین وہ ہے تلوا تیرا
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے، پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
ابن زھرٰی کو مبارک ہو عروس قدرت
قادری پائیں تصدق مرے دولہا تیرا
بدسہی، چور سہی، مجرم و ناکارہ سیs
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
فخر آقا میں رضا اور بھی اک نظم رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرہ تیرا

No comments yet

وہ راضی ہے تو پھر اہلِ جفا سے کچھ نہیں ہوگا
کسی ظالم کے جبرِ ناروا سے کچھ نہیں ہوگا
تُو وہ بیمار ہے جس کی شفا مکے میں لکّھی ہے
کہ اس تبدیلی ٔآب و ہوا سے کچھ نہیں ہوگا
مسیحا ایک ہے تیرا مدینے میں جو رہتا ہے
یہ سب قاتل ہیں اب ان کی دوا سے کچھ نہیں ہوگا
ترا معبود کیا پتھر کا بُت ہے ہل نہیں سکتا
وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں خدا سے کچھ نہیں ہوگا
چراغِ دل جلا اور پھر اُسے طوفان میں رکھ دے
خدا ہر شے پہ قادر ہے ہوا سے کچھ نہیں ہوگا
بہت اصحابِ فیل آئے جو باقی ہیں وہ آجائیں
یہی کعبہ رہے گا ابرھا سے کچھ نہیں ہوگا

No comments yet

مینہہ برسدا ویکھیا انوار دا
ذِکر ہو وے جس جگہ سر کار دا

کون سی نی؟ دس حلیمہ ؓ کون سی ؟
بکریاں جو تیریاں سی چار دا

ویکھ لیندا جو مِرے محبوب نوں
مال تے کی جان اپنی وار دا

ہین زلفاں سوہنیاں ، من موہنیاں
نور وِچّوں دی ہے لَشکاں مار دا

ہے بڑا خوش بخت جالی نال جو
لا کے سینے تے کلیجہ ٹھا ر دا

وِچ صحابہ بیٹھدے سَن جَد حضور
کی سماں ہو سی بھلا دربار دا

لگ پتہ جائے گا ناؔصر حشر نوں
مُل پوِے گا جَد ترے اشعار دا

No comments yet

وَصَلَّ اللہ عَلٰی نورٍٍکز و شُد نورِ ہا پیدا
زمیں از حُبّ اُو ساکن، فلک در عشق اُو شیدا

از ودر ہر تنے ذوقے وزودر ہر دِلے شوقے
ازوبر ہر زباں ذکرے وز ودرہر سرِ سودا

محمد احمد و محمود وے را خالقش بستود
کزوشد بو د ہر موجود زوشد دیدہ ہا بینا

اگر نامِ محمد ﷺرا نیا وردِ شفیع آدم
نہ آدم یا فتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا
نہ ایوب از بلاراحت نہ یوسف شوکت و حشمت
نہ عیسٰی آں مسیحا دم نہ موسیٰ آں ید بیضا

دو چشم نرگینش را کہ ماز اغ البصر خوانند
دو زلف عنبرینش رآلہ والیل اذا یغشٰی

زسرِّ سینہ اش جاؔمی الم نشرح لکَ برخواں
زمعرا جش چہ می پرسی کہ سبحان الذی اسریٰ

No comments yet

وطن میرا مدینہ ہے مجھے مت بے وطن کہنا
مجھے آواز جب دینا ، غلامِ پنجتن کہنا

دُعائیں پنجتن کے نام سے خالی نہیں جاتیں
نبی، خیرا لنساء ،شبیر، حیدر اور حسن کہنا

پیام آقا کو دے دینا صبا! سارے غلاموں کا
بہت تڑپا رہی ہے اب مدینے کی لگن کہنا

تمنا ہے فدا ہو جاؤں مکے اور مدینے پر
بندھے احرام جو میرے، اُسے میرا کفن کہنا

فضا !سورج کو سمجھانا یہی تو شہر ِ آقا ہے
مدینے میں ادب کے ساتھ اترے ہر کرن کہنا

کماؔل الفاظ جو آقا کی نعتوں میں سجائے ہیں
حسیں ہیں اس قدر سارے، انہیں لعل ِیمن کہنا

No comments yet