پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جبریل پر بچھایئں تو پر کو خبر نہ ہو
کانٹا مرے جگر سے غم روزگار کا
یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو
فریاد امتی جو کرے حال زار میں
ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو
کہتی تھی یہ براق سے اس کی سبک روی
یوں جائیے کہ گرد سفر کو خبر نہ ہو
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں
اے مرتضٰی عتیق و عمر کو خبر نہ ہو
گما دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
آدل حرم سے روکنے والوں سے چھپ کے آج
یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بر کو خبر نہ ہو
طیر حرم ہیں یہ کہیں رشتے بپا نہ ہوں
یوں دیکھیے کہ تار نظر کو خبر نہ ہو
اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یوں دل میں آ کہ دیدہ تر کو خبر نہ ہو
اے شوق دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو
ان کے سوا رضا کو ئی حامی نہیں جہاں
گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں ان کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے جیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کوچیں کہو گنوائیں کیوں
یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑا ئے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو در د کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منت ِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذِکر پھر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کھِلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہوشام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے ملگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ در حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضا نراسِتم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوز، غم سا ز طرب بجائے کیوں
پوچھتے کیوں ہو عرش پر یوں گئے مصطفٰے کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
قصرِ دنٰی کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوح قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں
میں نے کہا کہ جلوہ ٔ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نور مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں
ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں
دل کو دے نور و داغ عِشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
دل کو ہے فِکر کس طرح مُردے جلاتے ہیں حضور
اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں
باغ میں شکرِ وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گل
کام ہے ان کے ذکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں
جو کہے شعر و پاس شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوہ زمزمۂ رضا کہ یوں
پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے باز ووں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیردیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آپڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے نقشِ پا ئے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہر ا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یار ب نصیب ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے رُوحُ الْامںی کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی ،امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
رَوِش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اِک بَھبو کا پھوٹا
خِرَد کے جنگل میں پُھول چمکا دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے
جِلو میں مرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغان ِوہم کے پَر، اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرش ِحق نے ،کہا مبارک ہو تاج والے!
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج ِشرف تیرے تھے
Qaseeda-e-me’raj part/7
پيارو آ مدينو نيارو نيارو آ مدينو
منهنجو ساھ آ مدينو واھ واھ مدينو
ريءَ پاڪ نبيءَ نه سري ٿي هي دل ٿڌا ساھ ڀري ٿي
جي نظر ٿئي ها هڪڙي وڃان سنڌ کان طيبه نڪري
مديني پاڪ اچان پسي روضي کي ٺران
مديني پاڪ اچان پسي روضي کي ٺران
شل موت ملي ها مديني ۾ منهنجي خاڪ رلي ها مديني ۾
جي جسم کان روح هتي نڪري گنبد کي ڏسي مينار ڏسي
ڀليم چوي سبحان الله جي قبر مديني منجھ ملي
پیرانِ پیر لجپال میراں نور نبی مصطفٰے کے لال میراں
پیرانِ پیر لجپال میراں
خاک قدم کا میں سرمہ بناؤں راہ میں تیری میں پلکیں بچھاؤں
محبوب رب ذوالجلال میراں پیران پیر لجپال میراں
سر پہ ولایت کا ہے تاج والا نورِ نبی کا ہے کاندھے پہ دو شالا
پنج تنی رخ پہ ہے جلال میراں پیراں پیر لجپال میراں
قادری سخاوت کے چرچے بڑے ہیں غوث وقطب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں
کر رہے ہیں سب کو مالا مال میراں پیران پیر لجپال میراں
ولیوں نے قدموں میں گردن جھکائی سایا فگن تم پہ ہے مصطفائی
آپ کی نہیں کوئی مثال میراں پیران پیر لجپال میراں
عاصی کے دل کو مدینہ بنادو نورِ محمد ﷺ کے جلوے سجادو
کردو کرم پیر با کمال میراں پیران پیر لجپال میراں
پیراں ولیوں کے امام دے دو پنجتن کے نام
میں نے جھولی ہے پھیلائی بڑی دیر سے
ڈالو نظر کرم اک بار اپنے منگتوں پہ سرکار
میں نے آس ہے لگائی بڑی دیر سے
دل کی کلی تو آج کھلی ہے آپ آئے ہیں خبر ملی ہے
ذرا دھیرے دھیرے آؤ ذرا دھیرے دھیرے آؤ
للہ نظرِ کرم فرماؤ میں نے محفل ہے سجائی بڑی دیر سے
چاروں طرف ہے غم کے اندھیرے مدد کو آؤ آقامیرے
تمہیں واسطہ نبی ﷺ کا دے دو صدقہ علیؓ کا
میں نے بپتا ہے سنائی بڑی دیر سے
پیراں ولیوں کے امام دے دو پنجتن کے نام
میں نے جھولی ہے پھیلائے بڑی دیرسے
پوچھتے کیا ہو مدینے سے میں کیا لا ہوں
اپنی آنکھوں میں مدینے کو بسا لا یا ہوں
دل بھی میرا ہے وہیں جان بھی میری ہے وہیں
اپنی کندھوں پر اپنے لاشے کو اٹھا لا یا ہوں
جس نے چومے قدم سر ور ِ عالم کے
خاک ِ طیبہ کو میں اپنی پلکوں پہ سجا لا یا ہوں
سایہ گمبدِ خضرا میں ادا کر کے نماز
اپنے سر کو میں عرش کا ہم پایا بنا لا یا ہوں
جان و دل وہاں رکھ کے امانت کی طرح
پھر وہیں جانے کے اسباب بنا لا یا ہوں
پوچھا گل سے یہ میں نے کہ اے خوبرو تجھ میں آئی کہاں سے نزاکت کی خو
یا د میں کس کی ہنستا ، مہکتا ہے تو ہنس کے بولا کہ اے طالبِ رنگ و بو
اللہ ، اللہ ، اللہ ،اللہ
عرض کی میں نے سُنبل سے اے مشکبو صبح کو کر کے شبنم سے تازہ وضو
جھومکر کون سا ذکر کرتا ہے تو سن کے کرنے لگا ومبدم ذکر ہو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
جب کہا میں نے بلبل سے ائے خوش گلو کیوں چمن میں چہکتا ہے تو چار سو
دیکھ کر گل کسے یا د کرتا ہے تو وجد میں بول اٹھا وحدہٗ وحدہٗ
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
جب پپیہے سے پوچھا کہ ائے نیم جاں یاد مین کس کی کہتا ہے تو “پی کہاں ”
کون ہے”پی ترا ” کیا ہے نام و نشاں بوں اٹھا بس وہی جس پہ شیدا ہے تو
اللہ ، اللہ ،اللہ اللہ
آکے جگنو جو چمکے مرے روبرو عرض کی میں نے ائے شاہد شعلہ رد کس کی طلعت ہے تو کس کا جلو ہ ہے تو یہ کہا جس کا جلوہ ہے یہ چار سو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ ،
میں نے پوچھا یہ پروانے سے دوبدو کس لیے شمع کی لو پہ جلتا ہے تو
شعلۂ نار میں کس کی ہے جستجو جلتے جلتے کہا اس نے یا نورُہٗ
اللہ ، اللہ ، اللہ ،اللہ
اعظمی گرچہ بے حد گناہگار ہے مجرم و بے عمل ہے خطا کار ہے
حق تعالیٰ مگر ایسا غفار ہے اس کی رحمت کا نعرہ ہے لاتقنطو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے
ہر آہ گئی عرش پہ، یہ آہ کی قسمت
ہر اشک پہ اِک خلد ہے، ہر اشک کی قیمت
تحفہ یہ ملا ہے مجھے سرکار ِ نبی سے
بھاتی نہیں ہمدم مجھے جنت کی جوانی
سنتا نہیں زاھدسے میں حوروں کی کہانی
اُلفت ہے مجھے سایۂ دیوار نبی سے
عرفاں کی کسک خُلق کی مَے صبر کا ساغر
کیا لطف ملا کرتا ہے جو دیتے ہیں سَروَر
یہ پوچھ لے آکر کوئی بیمارِ نبی سے