یا رب سنائیں ہم کسے اب مدعاۓ دل
ہیں نہیں جہاں میں حاجت روائے دل
کیا کہئے بحر شوق اب ماجرائے دل
دل ہے سفینہ اور وہ ہیں نا خدائے دل
آئینۂ حیات کی تکمیل کے لئے
لازم ہے کائنات میں صدق و صفائے دل
دل اور درد دونوں میں اک ربط خاص ہے
دل آشنائے درد ہے درد آشنائے دل
ہر ٹیس جس کی تیری طرف ملتفت کرے
یا رب وہ درد چاہیے مجھ کو برائے دل
دنیائے دل کا حال نہ پوچھو فراق میں
مصروف انتظار ہیں صبح و مسائے دل
صدہا اٹھائیں دل کی بدولت صعوبتیں
دیکھو نصیرؔ اور ابھی کیا کیا دکھائے دل
یاں شبہ شبیہ کا گزرنا کیسا !
بے مثل کی تمثال سنور نا کیسا
ان کا متعَلق ہے ترقی پہ مُدام
تصویر کا پھر کہیے اترنا کیسا
یاد میں جس کی نہیں ہوش تن وجاں ہم کو
پھر دکھادے وہ رخ اے مہر فروزاں ہم کو
دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں
کیا ہی خود رفتہ کیا جلوۂ جاناں ہم کو
جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی
پھر دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
کاش آویزہ ٔ قندیل مدینہ ، ہو وہ دِل
جس کی سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو
عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا
دو قدم چل کے دکھا سردِ خراماں ہم کو
شمع طیبہ سے میں پروانہ رہوں کب تک دور
ہاں جلادے شررِ آتش پنہاں ہم کو
خوف ہے سمع خراشیِ سگِ طیبہ کا
ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ وافغاں ہم کو
خاک ہو جائیں درِ پاک پہ حسرت مٹ جائے
یا الٰہی نہ پھر ا بے سرو سَاماں ہم کو
خارِ صحرائے مدینہ نہ نِکل جائے کہیں
وحشتِ دل نہ پھرا کوہ و بیاباں ہم کو
تنگ آئے ہیں دو عالم تری بیتابی سے
چین لینے دے تپِ سینۂ سوز اں ہم کو
پاؤں غربال ہوئے راہ مدینہ نہ ملی
اے جنوں اب تو ملے رخصتِ زنداں ہم کو
میرے ہر زخمِ جگر سے یہ نکلتی ہے صَدا
اے ملیح عربی کردے نمکداں ہم کو
سیر گلشن سے اسیرانِ قفس کو کیا کام
نہ دے تکلیفِ چمن بلبلِ چمن بلبلِ بستاں ہم کو
جب سے آنکھوں میں سمائی ہے مدینہ کی بہار
نظر آتے ہیں خزاں دیدہ گلستاں ہم کو
گر لب پاک سے اقرار شفاعت ہو جائے
یوں نہ بے چین رکھے جو شِش عصیاں ہم کو
نیر حشر نے اِک آگ لگا رکھی ہے !
تیز ہے دھوٗپ ملے سایۂ داماں ہم کو
رحم فرمائیے یا شاہ کہ اب تاب نہیں
تابکے خون رلائے غمِ ہجراں ہم کو
چاکِ داماں میں نہ تھک جائیو اے دستِ جنوں
پرزے کرنا ہے ابھی جیب و گریباں ہم کو
پَردہ اُس چہرۂ انور سے اٹھا کر اِک بار
اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو
اے رضا وصفِ رُخِ پاک سنانے کے لیے
تدر دیتے ہیں چمن مُرغ غزل خواں ہم کو
یادِ وطن سِتم کیا دشت ِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں
دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئی
پوچھو تو آہِ سر د سے ٹھنڈی ہو اچلائی کیوں
چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بن میں ٹھگوں کے آبسو
پھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں
باغ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج
قمری ِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں
نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم ِ خلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہو ا بتائی کیوں
کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگسِ مَست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں
تو نے تو کر دیا طبیب آتش ِ سینہ کا علاج
آج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
فکرِ معاش بد بلا ہو ل معاد جاں گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں
ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہوا
ورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں
حور جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پَردہ ٔ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں
غفلت ِ شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیر خوار
کرنے کو گد گدی عبث آنے لگی بہائی کیوں
عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خیر ہے
پیٹتی سر کو آرزو دشتِ حَرم سے آئی کیوں
حسرتِ نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا
ایسے مریض کو رضا مرگِ جواں سنائی کیوں
یادوں میں وہ شہرِ مدینہ منظر منظر آج بھی ہے
ایک زمانہ گذرا لیکن، رُوح معطّر آج بھی ہے
کوئی نظر خضریٰ سے اٹھ کر اس کے چہرے پر نہ گئی
یہ احساس ِ ندامت یارو چاند ے رُخ پر آج بھی ہے
مدحِ نبی کی نغمہ سرائی حمد و ثناء کی گُل پاشی
کَل بھی یہی تھا اپنا مقدر، اپنا مقدر آج بھی ہے
وہ دیدار کا موسم ، ساقی پیشِ نظر اور جامِ دید
برسوں بیت گئے اس رُت کو ہاتھ میں ساغر آج بھی ہے
عہد ِ ادیب اور مدحِ محمد کوئی آج کی بات نہیں
چودہ صدیوں سے یہ چرچا یونہی گھر گھر آج بھی ہے
یادِ شفیعِ مُذنبین ہے
اس دل میں اور کچھ نہیں ہے
کس کا رقیب دل بنا جو
محبوبِ ربّ العالمین ہے
خورشید و ماہتاب و انجم
لیکن تم ایسا اب نہیں ہے
صدیوں کے فاصلے ہیں پھر بھی
سایہ ہے دُور ، وہ قریب ہے
بعثت میں آخرالزّماں وہ
خلقت میں نورِ اوّلیں ہے
وہ آسماں ہیں معرفت کے
بندہ فقط، زمیں زمیں ہے
جب سے ملی ہے ان کی نسبت
دنیا اپنی حَسیں حَسیں ہے
یہ سوز، یہ گداز، یہ نم
سب میں کہاں، کہیں کہیں ہے
نازاں ہیں اہلِ عرش اس پر
کہنے کو یہ زمیں، زمیں ہے
نقشِ قدم جہاں جہاں ہیں
میری جبیں وہیں وہیں ہے
سیکھو انداز التجا کے
ان کے یہاں کمی نہیں ہے
عصیاں مرے بہت ہیں ، لیکن
وہ رحمۃ اللّعالمیں ہے
دشمن بھی کہہ ر ہے ہیں جس کو
صادق ہے وہ ، وہی امیں ہے
مٹھی میں جسکی سب کے دل ہیں
دل میں ادیب کے مکیں ہے
یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا!؟
پھر اِن کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جُھکا تھا مُجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں، کہ ساری قندیلیں جِھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے؟ چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے!
یہی سَماں تھا کہ پیکِ رحمتْ خبر یہ لایا کہ چلیے حضرتﷺ
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اۓ محمد! قریں ہو احمد! قریب آ سرورِ مُمجَّد
نِثار جاؤں یہ کیا ندا تھی! یہ کیا سماں !تھا یہ کیا مزے تھے
تَبارَک َاللهُ شان تیری تجھی کو زَیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش ِلَنْ تَرَانِیْ کہیں تقاضے وصال کے تھے
Qaseeda-e-me’raaj part/8
یا رب پھر اوج پر یہ ہمارا نصیب ہو
سوئے مدینہ پھر ہمیں جانا نصیب ہو
مکہ بھی ہو نصیب مدینہ نصیب ہو
دشتِ عرب نصیب ہو صحرا نصیب ہو
حج کا سفر پھر اے مرے آقا ﷺ نصیب ہو
عرفات کا منٰی کا نظارا نصیب ہو
اللہ ! دید گنبد خضرا نصیب ہو
یار ب ! رسول ﷺپاک کا جلوہ نصیب ہو
چوموں عرب کی وادیاں اے کاش جا کے پھر
صحرا میں اُن ﷺ کے گھومنا پھرنا نصیب ہو
کعبے کے جلوؤں سے دل مضطر ہو شاد پھر
لطفِ طوافِ خانہ کعبہ نصیب ہو
یہ قول سچ ہے حبیب داور، درود تم پر سلام تم پر
تمہارا کوئی نہیں ہے ہمسر ، درود تم پر سلام تم پر
ہم عاصیوں کا سہارا تم ہو ، کہ جس دل سے پکارا تم ہو
ہو رہنما تم، تمہیں ہو رہبر، درود تم پر سلام تم پر
تمہارا رتبہ ہے اونچا سب سے ، کہ تم ہو اعلیٰ و بالا سب سے
ہو چاند تم تو صحابہ اختر ، درود تم پر سلام تم پر
ہو دھوپ محشر میں تیز جس دن، تپش سے سب کے بدن جلے ہوں
عطا ہو رحمت کی ہم کو چادر، درود تم پر سلام تم پر
نزولِ رحمت تمہارے دم سے ، حصولِ برکت تمہاری نسبت
رسولِ اکرم ﷺحضورِ انورﷺ، درود تم پر سلام تم پر
شعورِ جیون تمہی نے بخشا، تمہی نے رستا دکھایا سیدھا
تمہی ہو بھٹکے ہوؤں کے رہبر، درود تم پر سلام تم پر
قلوبِ عالم میں بستے تم ہو، کہ روحِ دنیا میں رہتے تم ہو
تمہارا چرچا رہے گاگھرگھر، درود تم پر سلام تم پر
وہ حجرِ اسود، وہ آبِ زم زم، وہ غار و پتھر ، ستون و منبر
تمہاری نسبت ملے ہیں گوہر ، درود تم پر سلام تم پر
ہے ہجرِ طیبہ میں آنکھ پُرنم ، مجھے بھی خوشیوں بھرا دو جیون
غموں کی اوڑھے ہوں سر پر چادر، درود تم پر سلام تم پر
جو جسم و جاں میں ہیں زخم آئے دکھاؤں کیسے، بتاؤں کیسے
ہو چارہ گر تم مسیحا اکبر، درود تم پر سلام تم پر
کہانی غم کی تمہیں سناؤں ، فسانہ دکھ کا کہوں گا تم سے
ہو تم ہی پُرسانِ حالِ مضطر، دورد تم پر سلام تم پر
طلب ہے ہم کو کرم کی آقاﷺ، ہمیں ہے رحمت کا آسرا بھی
پڑے ہیں دکھ کے سروں پہ پتھر، درود تم پر سلام تم پر
جدائی کا بھی عجب مزا ہے مگر دو اذنِ سفر خدارا
کہ رکھو مرہم کو زخمِ دل پر، درود تم پر سلام تم پر
نظر کو میری دکھا دو جلوہ کہ دل کو مرے قرار آئے
صدائیں دیتا ہے دل یہ مضطر ، درود تم پر سلام تم پر
جبینِ خورشید و ماہ و انجم جھکی ہے سب کی تمہارے در پر
فرشتے تم سے نہیں ہیں بہتر، درود تم پر سلام تم پر
ہیں صبحیں شاعر بہاروں جیسی، سہانی جس کی ہیں ساری شامیں
حسیں وہاں کا دکھا دو منظر، درود تم پر سلام تم پر
یا نبی سلامٌ علیک
یا رسول سلامٌ علیک
رحمتوں کے تاج والے
دو جہاں کے راج والے
عرش کے معراج والے
عاصیوں کے لاج والے
یا نبی سلامٌ علیک ، یا رسول سلامٌ علیک
یا نبی سلامٌ علیک ، صلوٰۃ اللہ علیک
ہے یہ حسرت در پہ آئیں
اشک کے دریا بہائیں
داغ سینے کے دکھائیں
سامنے ہو کر سنائیں
یا نبی سلامٌ علیک ، یا رسول سلامٌ علیک
یا نبی سلامٌ علیک ، صلواتُ اللہ علیک
جان کر کافی سہارا
لے لیا ہے در تمہارا
خلق کے وارث خدارا
لو سلام اب تو ہمارا
یا نبی سلامٌ علیک، یارسول سلامٌ علیک
یا نبی سلامٌ علیک، صلواتُ اللہ علیک
میرے مولا ، میرے سرور
ہے یہی ارمان اکبر
پہلے قدموں میں رکھے سر
پھر کہے یہ سر کو اُٹھا کر
یا نبی سلامٌ علیک، یارسول سلامٌ علیک
یا نبی سلامٌ علیک، صلواتُ اللہ علیک
یا نبی تم پہ بار بار سلام
بے عدد اور بے شمار سلام
روزِ اوّل سے لے کے تابہ ابد
آپ پر روز سو ہزار سلام
یہ بھی تھوڑا ہے آپ کی خاطر
بھیجیے گر کروڑ بار سلام
عرض کرتا ہوں یا رسول اللہ
کافی خستہ و نزار سلام
سیدِ کائنات و خیر الانام
اُن کے اوپر ہزار بار سلام
یارب محمد ﷺ! میری تقدیر جگا دے
صحرائے مدینہ مجھے آنکھوں سے دکھا دے
پیچھا مرا دُنیا کی محبت سے چھڑادے
یا رب ! مجھے دیوانہ مدینے کا بنا دے
روتا ہوا جس دم میں درِ یار پہ پہنچوں
اُس وقت مجھے جلوۂ محبوب دِکھادے
دل عشقِ محمد ﷺ میں تڑپتا رہے ہر دم
سینے کو مدینہ میرے اللہ بنا دے
بہتی رہے ہر وقت جو سرکارﷺکے غم میں
روتی ہوئی وہ آنکھ مجھے میرے خدا دے
ایمان پہ دے موت مدینے کی گلی میں
مدفن مرا محبوب ﷺکے قدموں میں بنا دے
ہو بہرِ ضیاء نظر کرم سوئے گنہگار
جنت میں پڑوسی مجھے آقا ﷺکا بنادے
دیتا ہوں تجھے واسطہ میں پیارے نبی ﷺکا
اُمت کو خدایا رَہِ سنت پہ چلادے
عطار سے محبوب ﷺکی سنت کی لے خدمت
ڈنکا یہ ترے دین کا دُنیا میں بجادے
اللہ !ملے حج کی اسی سال سعادت
عطار کو پھر روضۂ محبوب ﷺ دکھادے
یا الٰہی رحم فرما مصطفٰے کے واسطے
یا رسول اللہ ﷺ کرم کیجیے خدا کے واسطے
مشکلیں حل کر شہ مشکل کشا کے واسطے
کر بلائیں رد شہید کربلا کے واسطے
سید سجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے
علم حق دے باقر علم ھدٰی کے واسطے
صدق صادق کا تصدق صادق الاسلام کر
بے غضب راضی ہوں کاظم اور رضا کے واسطے
بہر معروف و سری معروف دے بیخود سری
جند حق میں گن جنید با صفا کے واسطے
بہر شبلی شیر حق دنیا کے کتوں سے بچا
ایک کا رکھ عبدواحد بے ریا کے واسطے
بوالفرح کا صدقہ کر غم کو فرح دے حسن وسعد رضی اللہ عنہم
بو الحسن اور بو سعید سعد زا کے واسطے
قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے
احسن اللہ لھم رزقا سے دے رزق حسن
بندہ رَزاق تاج الاصفیا کے واسطے
نصرابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ
دے حیات دیں محیٰ جاں فزا کے واسطے
طور عرفان و علو و حمد وحسنٰے و بہا
دے علی موسٰے حسن احمد بہا کے واسطے
یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کا ساتھ ہو
یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادی ٔدیدارِ حُسنِ مصطفٰے کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گور تیرہ کی جب آئے سخت رات
ان کےپیارے منہ کی صبح جانفزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب پڑے محشر میں شور دارو گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب زبانیں باہر آئیں پاس سے
صاحب کوثر شہِ جو دو سخا کا ساتھ ہو
یا الٰہی سرو مہری پر ہو جب خورشید حشر
سید بے سایہ کے ظلِ لو کا ساتھ ہو
یا الٰہی گرمیءِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامن محبوب ﷺ کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوش خلق ستار خطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب حساب خندہ بجار لائے
چشمِ گریاں شفیع ِ مرتضیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیاء کا ساتھ
یا الٰہی جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتاب ہاشمی نورُ الھدیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب سر شمشیر پر چلنا پڑے
ربِ سلم کہنے والے غمزدا کا ساتھ ہو
جب رضا خواب گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدارِ عشق مُصطفٰے ﷺکا ساتھ ہو
یا نبی سَلامُ عَلَیۡکَ یا رسول سلامُ عَلَیۡکَ
یا حبیب سَلَامُ عَلَیۡکَ صَلوٰۃُ اللہ عَلَیۡکَ
یا نبی سَلامُ عَلَیۡکَ
اَنۡتَ شمسٌ اَنۡتَ بَدرٌ اَنۡتَ لُورٌ فَوۡقَ نُورٌ
اَنۡت وَّ عَالِی اَنۡتَ مِصۡبَاحُ الصدورِ
یا نبی سَلَامُ عَلَیۡکَ
یَا حَبِیۡبِی یا مُحمَّد یَا عروسُ الخافقِین
یَا مُوَیَّدُ یَا مُحَمَّد یا اِمَامَ الۡقِبۡلتَیۡنِ
یا نبی سَلَامُ عَلَیۡکَ
یا شفیع الوریٰ سلامٌ علیک
یا نبی الھدیٰ سلامٌ علیک
خاتم الانبیآء سلامٌ علیک
سید الاصفیاء سلامٌ علیک
لیلۃ اسریٰ بہٖ قالت الانبیآء
مرحبا مرحبا سلامٌ علیک
واجبٌ حُبُّک علی المخلوق
یا حبیب العُلیٰ سلامٌ علیک
اعظم الخلق اشرف الشرفآء
افضل الاذکیا سلامٌ علیک
انک مقصدی و ملجا ئی
انک مدّعا سلام علیک
اشفعی یا حبیبی یوم الجزاء
انت شافعنا سلامٌ علیک
سیدی یا حبیبی مولائی
لک قلبی فداک سلامٌ علیک
ھٰذا قولُ عُلامک عشقی
منہ یا مُصطفٰے سلامٌ علیک
یہ زمین یہ فلک ان سے آگے تلک جتنی دنیائیں ہیں
سب میں تیری جھلک سب سب سے لیکن جدا
اۓ خدا اۓ خدا
ہر سحر پھوٹتی ہے رنگ سے ، سبزۂ و گل کھلیں سینہ سنگ سے
گونجتا ہے جہاں تیرے آہنگ سے
جس نے کی جستجو مل گیا اس کو تو سب کا رہنما
اۓ خدا اۓ خدا
ہر ستارے میں آباد سے اک جہاں ، چاند سورج تری روشنی کے نشاں
پتھروں کو بھی تو نے عطا کی زباں
جانور ، آدمی کر رہے ہیں سبھی تیری حمد و ثنا
اۓ خدا اۓ خدا
نور ہی نور بکھرا ہے کالک نہیں ، دوسرا کوئی حدگماں تک نہیں
تیری وحدانیت میں کوئی شک نہیں
لاکھ ہوں صورتیں ایک ہی رنگ میں تو ہے جلوہ نما
اے ٔ خدا اۓ خدا
سونپ کر منصب آدمیت مجھے تو نے بخشی ہے اپنی خلافت مجھے شوق سجدہ بھی کر اب عنایت مجھے
ہے میرا سر تیری دہلیز پر ہے یہی التجا
اۓ خدا اۓ خدا
یاد وچ روندیاں نیں اکھیاں نماٹیاں
سد لو مدینے آقا کرو مہربانیاں
ساری کائنات دا خزینہ مل گیا اے
اللہ دی سوں جنہاں نوں مدینہ مل گیا اے
جالیاں دے کول بہہ کے اونہاں موجاں مانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
درد ے سُوالیاں نوں خیر جھولی پاوناں
گندیاں تے مَندیاں نوں سینے نال لاؤناں
ایہو لجپالاں دِیاں عادتاں پُرانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
ساڈا تے ظؔہوری ایہو دین تے ایمان اے
پیار کملی والے دا عبا دتاں دی جان اے
باقی سبھے گلّاں ایویں قصے تے کہانیاں
سدلو مدینے آقا کرو مہربانیاں
یَا صَاحِبَ الۡجَمَالِ وَیَا سَیِّدَالۡبَشَر
مِنۡ وَّجۡہِکَ الۡمُنِیۡرِ لَقَدۡ نُوِّرَ الۡقَمَرُ
لَا یُمۡکِنِ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ
بعد از خُدا بزرگ تُو ئی قِصّۂ مُختصر
یا رسول اللہ ﷺ آکر دیکھ لو
یا مدینے میں بلا کر دیکھ لو
سینکڑوں کے دل منور کر دیے
اِس طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھ لو
وہ کبھی انکار کرتے ہی نہیں
بے نواؤ! آزما کر دیکھ لو
چاہے جو مانگو عطافرمائیں گے
نامُرادو! ہاتھ اٹھا کر دیکھ لو
سیر ِجنّت دیکھنا چاہو اگر
روضۂ انور پہ آکر دیکھ لو
دو جہاں کی سرفرازی ہو نصیب
اُن کے آگے سر جھکا کر دیکھ لو
اُن کی رِفعت کا پتہ ملتا نہیں
مِہرو مَہ چکر لگا کر دیکھ لو
اِس جمیؔل قادری کو بھی حضور
اپنے در کا سگ بنا کر دیکھ لو