حبیب خدا کا نظار اکروں میں
دل وجاں ان پر نثار ا کروں میں
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں ؟
تِرے در سے اپنا گزارا کروں میں
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑں !
تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں
مجھے ہاتھ آئے اگر تاجِ شاہی
تری نقشِ پا پر نثارا کروں میں
مِرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں ؟
تمہاری ہی جانب اشارہ کروں میں !
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد ﷺ
اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوؔری
مدینے کی گلیاں بوہارا کروں میں
تو شمع ِ رسالت ﷺ ہے عالم تیرا پروانہ
تو ماہِ نبوت ﷺ ہے اۓ جلوہ جانانہ
جو ساقیٔ کوثر ﷺکے چہرے سے نقاب اٹھے
ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے
آنکھیں بھی نورانی اۓ جلوہ ٔ جانانہ
سر شار مجھے کر دے اِک جامِ لبا لب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
ہر پھول میں بو تیری، ہر شمع میں ضَو تیری
بلبل ہے تیرا بلبل، پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں تِرے در کا کھاتے ہیں تِرے در کا
پانی ہے تِرا پانی، دانہ ہے تِرا دانہ
آباد اسے فرما ، ویراں ہے دل نوؔری
جلوے تِرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ