اے شاہ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے

کالی کملی والے

اے شاہ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے

دربار الگ تیرا

جبریل ترا خادم محتاج ہے جگ تیرا

بگڑی کو سنواریں گے

دکھ درد کے عالم میں تجھ کو ہی پکاریں گے

کیوں اور کسی گھر سے

جو کچھ ہمیں ملنا ہے ملنا ہے ترے در سے

چوکھٹ تری عالی ہے

کچھ بھیک ملے آقا جھولی میری خالی ہے

ملنے ہی نہیں جاتا

شاہوں کو تیرا منگتا خاطر میں نہیں لاتا

اب کون ہمارا ہے

دولہا شب اسریٰ کے اک تیرا سہارا ہے

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

مجھ پہ بھی چشم کرم اے مرے آقا کرنا

حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے

کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

میں ہوں بیکس تیرا شیوہ ہے سہارا دینا

میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے

کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

تیرے صدقے وہ اسی رنگ میں خود ہی ڈوبا

جس نے جس رنگ میں چاہا مجھے رسوا کرنا

یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے در یتیم

ساری امت کی شفاعت تن تنہا کرنا

آل و اصحاب کی سنت مرا معیار وفا

تری چاہت کے عوض جان کا سودا کرنا

شامل مقصد تخلیق یہ پہلو بھی رہا

بزم عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیرؔ ان کی نظر پڑ ہی گئی

کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

یہ نہ پوچھو ملا ہمیں در خیر الوریٰ سے کیا

نظر ان کی پڑی تو ہم ہوئے پل بھر میں کیا سے کیا

مرے دل کی وہ دھڑکنیں دم فریاد سنتے ہیں

متوجہ جو ہیں وہ ہیں مجھے باد صبا سے کیا

نظر ان کی جو ہو گئی اثر آیا دعا میں بھی

مرے دل کی تڑپ ہی کیا مرے دل کی صدا سے کیا

جسے اس کا یقین ہے کہ وہی بخشوائیں گے

کوئی خطرہ کوئی جھجھک اسے روز جزا سے کیا

رہ طیبہ میں بے خودی کے مناظر ہیں دیدنی

کبھی نقشے ہیں کچھ سے کچھ کبھی جلوے ہیں کیا سے کیا

جسے خیرات بے طلب ملے باب رسول سے

اسے دارین میں نصیرؔ غرض ماسوا سے کیا

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں

اک جھلک آج دکھا گنبد خضریٰ کے مکیں
کچھ بھی ہیں دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں

سر پہ رکھ دیجے ذرا دست تسلی آقا
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں

نام کس منہ سے ترا لیں کہ ترے کہلاتے
تیری نسبت کے تقاضوں کو بھلائے ہوئے ہیں

گھٹ گیا ہے تری تعلیم سے رشتہ اپنا
غیر کے ساتھ رہ و رسم بڑھائے ہوئے ہیں

شرم عصیاں سے نہیں سامنے جایا جاتا
یہ بھی کیا کم ہے ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں

تری نسبت ہی تو ہے جس کی بدولت ہم لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں

کاش دیوانہ بنا لیں وہ ہمیں بھی اپنا
ایک دنیا کو جو دیوانہ بنائے ہوئے ہیں

اللہ اللہ مدینے پہ یہ جلووں کی پھوار
بارش نور میں سب لوگ نہائے ہوئے ہیں

کشتیاں اپنی کنارے سے لگائے ہوئے ہیں
کیا وہ ڈوبے جو محمد کے ترائے ہوئے ہیں

نام آنے سے ابو بکر و عمر کا لب پر
کیوں بگڑتا ہے وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں

حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں

قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں

کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا

کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا

ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا

کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحیٰ تیرا

نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں

اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں

اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں

فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں

خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں

روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں

کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی

تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی

کیا بتاؤں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی

ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال

یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے ماہ و سال

اب بڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال

تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے

اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے

چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے

کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے

تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب

منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب

یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے

کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے

ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے

دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے

تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع

کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع

پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا

یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا

در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا

اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا

نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا

ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا

تجھ سے جو پھیر کے منہ ، جانب قران گیا

سرخرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا

کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا

لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا

مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا

محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی

دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی

روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی

آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی

ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا

تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا

تیری دہلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا

یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا

سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا

دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام

ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام

ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام

انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام

للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی

شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی

گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی

نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

بام مقصد پر تمناؤں کے زینے پہنچے

لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے

جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے

جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے

تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

مصطفٰے شانِ قدرت پہ لاکھوں سلام

اولیں نقشِ خلقت پہ لاکھوں سلام

قائلِ وحدہٗ لاشریک لہٗ

ماحی بدعت پہ پہ لاکھوں سلام

بھیڑ میں چوم لیں شاہ کی جالیاں

اے نظر تیری ہمت پہ لاکھوں سلام

کس کی چوکھٹ پہ دے رہا ہے تو صدا

اے گدا تیری قسمت پہ لاکھوں سلام

ان کی آمد کا سن کر جو ہوگا بپا

ایسے شورِ قیامت پہ لاکھوں سلام

چار یارانِ حضرت پہ ہر دم درود

ان کے دورِ خلافت پہ لاکھوں سلام

شاہِ بغداد غوث الورٰی محیِ دیں

آبروئے طریقت پہ لاکھوں سلام

کیجیے بند آنکھیں نصیرؔ اور پھر

بھیجیے ان کی صورت پہ لاکھوں سلام

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

آج مے خانے میں نیت میری بھر جانے دے

بادۂ ناب کے ساقی مجھے پیمانے دے

کس کو معلوم کہ کل کون رہے گا زندہ

آج رندوں کو ذرا پی کے بہک جانے دے

دیکھ اے دل نہ آنچ آئے وفا پر کوئی

جو بھی آتی ہے مصیبت میرے سر آنے دے

تجھ سے بھی دست و گریباں کبھی ہو گا واعظ

وحشیٔ عشق کو رنگ اور ذرا لانے دے

اے مرے دست جنوں بڑھ کے الٹ دے پردہ

حسن شرمانے پہ مائل ہے تو شرمانے دے

اک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی

مے پلاتا ہے تو ایسے کئی پیمانے دے

عشق ہے عشق نصیرؔ ان سے شکایت کیسی

وہ جو تڑپانے پہ آمادہ ہیں تڑپانے دے

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

یا رب سنائیں ہم کسے اب مدعاۓ دل

ہیں نہیں جہاں میں حاجت روائے دل

کیا کہئے بحر شوق اب ماجرائے دل

دل ہے سفینہ اور وہ ہیں نا خدائے دل

آئینۂ حیات کی تکمیل کے لئے

لازم ہے کائنات میں صدق و صفائے دل

دل اور درد دونوں میں اک ربط خاص ہے

دل آشنائے درد ہے درد آشنائے دل

ہر ٹیس جس کی تیری طرف ملتفت کرے

یا رب وہ درد چاہیے مجھ کو برائے دل

دنیائے دل کا حال نہ پوچھو فراق میں

مصروف انتظار ہیں صبح و مسائے دل

صدہا اٹھائیں دل کی بدولت صعوبتیں

دیکھو نصیرؔ اور ابھی کیا کیا دکھائے دل

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے
 
دنیائے آشتی کی پھبن مجتبی حسن
لخت جگر نبی کا تو پیارا علی کا ہے
 
ہستی کی آب و تاب حسینؓ آسماں جناب
زہرا کا لال راج دلارا علی کا ہے
 
مرحب دو نیم ہے سر خیبر پڑا ہوا
اٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے
 
کل کا جمال مظہر کل میں عکس ریز
گھوڑے پہ ہیں حسین نظارہ علی کا ہے
 
اے ارض پاک تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
پرچم نبی کا چاند ستارا علی کا ہے
 
اہل ہوس کی لقمۂ تر پر رہی نظر
نان جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے
 
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو معاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
 
ہیں فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے
 
آثار پڑھ کے مہدی دوراں کے یوں لگا
جیسے ظہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے
 
دنیا میں اور کون ہے اپنا بجز علی
ہم بے کسوں کو ہے تو سہارا علی کا ہے
 
تو کیا ہے اور کیا ہے تیرے علم کی بساط
تجھ پر کرم نصیرؔ یہ سارا علی کا ہے
شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے ۔

جو رب دو عالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے

زہرہ کا وہ بابا ہے سبطین کا نانا ہے

اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں

جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

آو در زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن

ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے

ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں

کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے

یہ کہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت

میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے

اَس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا

بخشش کی روائت میں توبہ تو بہانہ ہے

ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصور میں

اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے

سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے

کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے

جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے

کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی

رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے

اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل

ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے

میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں

اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے

ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی

جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے

وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر

ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے

انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین و‌صحابہ پہ جب آ بنی

گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے

اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے

اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے
سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے
 
کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے
جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے
 
کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی
رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے
 
اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل
ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے
 
میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں
اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے
 
ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی
جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے
 
وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر
ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے
 
انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین و‌صحابہ پہ جب آ بنی
گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے
 
اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے
اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے
شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے
ان کو ارض و سماء دیکھتے رہ گئے

پڑھ کے روح الامین سورۂ والضحیٰ
صورتِ مصطفٰے دیکھتے رہ گئے

وہ امامت کی شب ،وہ صف انبیاء
مقتدی مقتدیٰ دیکھتے رہ گئے

معجزہ تھا وہ ہجرت میں ان کا سفر
دشمنانِ خدا دیکھتے رہ گئے

مرحبا شان ِ معراج ختم رسل
سب کے سب انبیاء دیکھتے رہ گئے

میں نصؔیر آج وہ ہے نعت نبی
نعت گو منہ مِرا دیکھتے رہ گئے

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet

دل میں کسی کو اور بسایا نہ جائے گا
ذکر ِ رسولِ پاک بُھلایا نہ جائے گا

وہ خود ہی جان لیں گے ، جتایا نہ جائے گا
ہم سے تو اپنا حال سُنایا نہ جائے گا

ہم کو جز ا ملے گی محمد (ﷺ)سے عشق کی
دوزخ کے آس پاس بھی لایا نہ جائے گا

کہتے تھے ، بلال ؓ تشدد سے کفر کے
عشق ِ نبی کو دل سے نکالا نہ جائے گا

بے شک حضور شافعِ محشر ہیں منکرو !
کیا اُن کےسامنے تمہیں لایا نہ جائے گا ؟

مانے گا اُ ن کی بات خدا حشر میں نصیؔر
بِن مصطفٰے خدا کو منایا نہ جائے گا

شاعر :پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی

No comments yet