جہاں روضۂ پاک خیرالوریٰ ہے وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟!
کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں تو پھر کیا ہے
محمد ﷺ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحبِ قابَ قوسین ٹھررے
بَشر کی سرِعرش مہمان نوازی یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جو عاصی کو کملی میں اپنی چھپالے جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دعادے
اسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر کیا ہے
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے تو پھر کیا ہے
تم اقبال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں یہ جرأت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
فاصلوں کو تکلّف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود ان ہی کو پکاریں گے ہم دور سے ، راستے میں اگر پاؤ ں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گمبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جا ئے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کِسے ، خود ہی آنکھوں سے سجدے سے ٹپک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے ، اور گلیوں میں قصدًا بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جاکے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈ تے ڈھونڈتے لو گ تھک جائیں گے
نام ان کا جہاں بھی لیا جائیگا ، ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائیگا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائیگا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
اۓ مدینے کے زائر! خدا کے لیے ، داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائیگا، بات بڑھ جائیگی ، میرے محتاط آنسوں چھلک جائیں گے
ان کی چشمِ کر م کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوق ِ سفر ؟
ہم کو اقبالؔ جب بھی اجاز ت ملی ، ہم بھی آقا کے در بار تک جائیں گے