مرے طرزِ سخن کی جان ہیں گُل بھی گُلستاں بھی
مرا حُسنِ بیاں ہے خار بھی چاکِ گریباں بھی
مرے دامن میں ، جگنو ہیں جہاں اور چاند تارے بھی
اِسی دامن میں رکھتا ہوں کچھ آہیں اور شرار ے بھی
جو میری عمر کا حاصل ہے ذکرِ مصطفٰے کرنا
تقاضائے محبّت ہے بیانِ کربلا کربلا
تقاضہ ہے ضمیرِ شاعر حق گو کی فِطرت کا
کہ حق گوئی و بیبا کی پہ مبنی سخن اُس کا
بیانِ سیّد الشُہداء کی جب تمہید ہوتی ہے
وہی عہدِ وفا کے رسم کی تجدید ہوتی ہے
حسین ابنِ علی ، سبطِ پیمبر ، شرفِ انسانی
وہ جس کے رُخ پہ تھی نُورِ محمد کی فراوانی
شہیدِ کربلا تاریخ کا عنوان ہے گویا
حسین ابنِ علی ہر قلب میں مہمان ہے گویا
بتایا ، کس طرح کرتے ہیں اُمّت کی نگہبانی
سکھایا ، کس طرح رکھتے ہیں سجدوں میں یہ پیشانی
جَلایا اس نے ظلمت میں چراغِ نُورِ ایمانی
یہ سب کچھ جانتے تھے پھر اُسے دیتے نہ تھے پانی
بہت ہی مختصر، بندوں سے رب کا فاصلہ نکلا
حرم سے لے کے اہلِ بیت کو، جب قافلہ نکلا
عمامہ باندھ کر عہدِ وفا کا ، کربلا جانا
تھا اُمّت کے لیے مقصود ان راہوں کا دکھلانا
وہ راہیں جو عروجِ آدمیت کا سبب ٹھریں
زوال ِ ظلم ٹھریں ، حق پرستوں کا لقب ٹھہریں
عرب کی سرزمیں ، تپتے ہوئے صحرا، خزاں کے دن
سفر میں تھے رسولِ ہاشمی کی جانِ جاں کے دن
یہ منزل آزمائش کی بڑی دشوار ہوتی ہے
فضا میں زہر ہوتا ہے، ہوا آزار ہوتی ہے
جب ہستی مردِ مومن کی سپرد دار ہوتی ہے
تو سائے کے لیے سر پر فقط تلوار ہوتی ہے
وہ جس کی شان میں تھی آیۂ تطہیر ِ قرآنی
اسی کی اہلِ کوفہ نے کیا نیزوں سے مہمانی
طلب نانا سے کوثر کی شفاعت کی سفارش بھی
نواسے پر وہی کرنے لگے تیروں کی بارش بھی
جَلے خیمے بدن چھلنی تھے خون میں تر قبائیں تھیں
خدا کو جو پسند آتی ہیں وہ ساری ادائیں تھیں
وہ چہرے نُور کے تھے ، گِرد جن کے نُور کے ہالے
بنے وہ خاک وخوں میں ایک ہو کر کربلا والے
وہ چہرے وہ بدن جو عشق کا اسرار ہوتے ہیں
غبارِ خاک سے ان کے کفن تیار ہوتے ہیں
نہ ہوتا گر محمد کا گھرانہ ایسی منزل پر
تو اڑ جاتا فروغ دیں کا مستقبل دھواں بن کر
سلام اُس پر کہ جو حق کے لیے سربھی کٹا آیا
سلام اُس پر جواُمّت کے لیے گھر بھی لُٹا آیا
سلام اُس پر مرا جو خون کے دریا میں تیرا ہے
سلام اُس پر کہ جو نانا کے پرچم کا پھریرا ہے
سلام اُس پر کہ جس نے زندگی کو زندگی بخشی
سَروں کو سَر بلندی اور ذوقِ بندگی بخشی
سلام اُس پر کہ جو دوش ِ پیمبر کی سواری ہے
سلام اُس پر کہ جنّت جس کے گھر کی راہداری ہے
تیر سینے پہ، برچھی پشت پر جھیلے ہوئے اِنساں
سلام اے فاطمہ کی گود میں کھیلے ہوئے اِنساں
بہت آسان ہے ذکرِ شہیدِ کربلا کرنا
درونِ قلب مشکل ہے وہی حالت بپا کرنا
شہید ِ کربلا کے ذکر کا مجھ پر جواب آیا
کہ تیری ذات میں اب تک نہ کوئی انقلاب آیا
سراسر آبرو بن غیرتِ شرم و حیا ہو جا
اگر مجھ سے محبّت ہے تو میرا نقش ِ پا ہو جا
جو تِرا طِفل ہے کامل ہے یا غوث طفیلی کا لقب واصل ہے یا غوث
تصوف تیرے مکتب کا سبق ہے تصرّف پر ترا عامل ہے یا غوث
تِری سَیِرالی اللہ ہی ہے فی اللہ کہ گھر سے چلتے ہی موصل ہے یا غوث
تو نورِ اوّل و آخِر ہے مَولیٰ تو خیر عاجل و آجل ہے یا غوث
ملک کے کچھ بشر کچھ جن کے ہیں پیر تو شیخ عالی و سافل ہے یا غوث
کتابِ ہر دل آثار تعرّف ترے دفتر ہی سے ناقل ہے یا غوث
فتوح الغیب اگر روشن نہ فرمائے فتوحات و فصوص آفل ہے یا غوث
تِرا منسوب ہے مَرفوع اس جا اضافت رَفع کی عامل ہے یا غوث
ترے کامی مشقت سے بَری ہیں کہ بَر تر نصب سے فاعل ہے یا غوث
ھدً سے احمد اور احمد سے تجھ کو کن اور سب کن مکن حاصل ہے یا غوث
تری عزّت ، تری رفعت تِرا فضل بفضلہ افضل و فاضل ہے یا غوث
ترے جلوے کے آگے منطقہ سے مہ و خور پر خط باطل ہے یا غوث
سیاہی مائل اس کی چاندنی آئی قمر کا یوں فلک مائل ہے یاغوث
طلائے مہر ہے ٹکسال باہر کہ خارج مرکز حامل ہے یا غوث
تو برزخ ہے برنگ نونِ منّت دو جانب متصلِ واصل ہے یا غوث
نبی سے آخذ اور امّت پہ فائِض ادھر قابل ادھر فاعل ہے یاغوث
نتیجہ حدّ اوسط گر کے دے اور یہاں جب تک کہ تو شامل ہے یا غوث
اَلَا طُوْبٰی لَکُم ْ ہے وہ کہ جن کا شبانہ روز ور د دل ہے یا غوث
عجم کیسا عرب حل کیا حَرم میں جمی ہر جا تِری محفل ہے یا غوث
ہے شرحِ اسمِ اَلْقَادِر ترا نام یہ شرح اس مَتن کی حامل ہے یا غوث
جبینِ جبَہ فرسائی کا ضدل تِری دیوار کی کھ گل ہے یاغوث
بجا لایا وہ امرِ سَارِعُوْا کو تِری جانب جو مستعجل ہے یا غوث
تصرّف والے سب مظھر ہیں تیرے تو ہی اس پر دے میں فاعل ہے یا غوث
رضا کے کام اور رُک جائیں حاشا
تِرا سائل ہے تو باذل ہے یاغوث
تِرا ذرّہ مہِ کامل ہے یا غوث تِرا قطرہ یم سَائل ہے یا غوث
کوئی سَالک ہے یا واصل ہے یا غوث وہ کچھ بھی ہو ترا سَائل ہے یا غوث
قدِ بے سایہ ظلِ کبریا ہے تو اس بے سایہ ظل کا ظل ہے یا غوث
تری جاگیر میں ہے شرق تا غرب قلمرو میں حرم تاحل ہے یا غوث
دل عِشق و رُخ حسن آئینہ ہیں اور ان دونوں میں تیرا ظلل ہے یا غوث
تِری شمع دِل آرا کی تب و تاب گل وبلبل کی آب و گل ہے یا غوث
تِرا مجنو ں تِرا صحرا تِرا نجد تِری لیلی تِرا محمل ہے یا غوث
یہ تیری چمپئی رنگت حسینی حسن کے چاند صبحِ دل ہے یا غوث
گلستاں زار تیری پنکھڑی ہے کلی سو خلد کا حاصل ہے یا غوث
اگال اس کا ادھار ابرا ر کا ہو جسے تیرا اُلش حاصل ہے یا غوث
اشارہ میں کیا جس نے قمر چاک تو اس مَہ کا مہِ کامل ہے یا غوث
جِسے عرشِ دوم کہتے ہیں افلاک وہ تیری کرسیِ منزل ہے یا غوث
تو اپنے وقت کا صدّیق ِ اکبر غنی وحیدر و عادل ہے یا غوث
ولی کیا مَرسل آئیں خود حضور آئیں وہ تیری وعظ کی محفل ہے یا غوث
جسے مانگے نہ پائیں جاہ والے وہ بن مانگے تجھے حاصل ہے یا غوث
فیوضِ عالم اُمّی سے تجھ پر عیاں ماضی و مستقبل ہے یا غوث
جو قرنوں سیَر میں عارف نہ پائیں وہ تیری پہلی ہی منزل ہے یا غوث
ملک مشغول ہیں اُس کی ثنا میں جو تیرا ذاکر و شاغل ہے یا غوث
نہ کیوں ہو تیری منزل عرش ثانی کہ عرشِ حق تِری منزل ہے یا غوث
وہیں سے اُبلے ہیں سَاتوں سمندر جو تیری نہر کا ساحل ہے یاغوث
ملائک کے بشر کے جن کے حلقے تری ضَو ماہ ہر منزل ہے یا غوث
بخارا و عراق و چشت و اجمیر تری لَو شمع ہر محفل ہے یا غوث
جو تیرا نام لے ذاکر ہے پیارے تصوّر جو کرے شاغل ہے یا غوث
جو سر دے کر ترا سود ا خریدے خدا دے عقل وہ عاقل ہے یا غوث
کہا تو نے کہ جو مانگو ملے گا
رضا تجھ سے ترا سائل ہے یا غوث
اَلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سَازیم محفلہا
بلا بارید حبِّ شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عِشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفامی کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفلہا
توہّب گا ہ ملکِ ہند اقامَت رانمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بربند ید محملہا
صلائے مجلسم دَر گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بربندید محملہا
مگر واں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِراہ و رسم منزلہا
در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰی مَا تَلْق مَن قَھْوٰی دَعِ الدُّنْیا وَاَمْھِلْھا
ولم قربانت اے دودِ چراغ محفل مولد
زتاب ِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسا رانِ سَاحلہا
رضا مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
اَ َلَا یٰاَ یُّھَا السَّاقِیْ اَدْرِکَا سًا وَّ نَاوِلْھَا
کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لیے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
تم چاہو تو قِسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت ہے قیامت ٹل جائے
لِلّٰہ اٹھا دو رُخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے
بوسہ گہِ اصحاب وہ مہر سامی
وہ شانۂ چپ میں اُس کی عنبر فامی
یہ طرفہ کہ ہے کعبہ ٔ جان و دِل میں
سنگ اسود نصیب رکنِ شامی
شبِ لحیہ و شارب ہے رُخِ روشن دن
گیسو وشب قدر و براتِ مومن
مژگاں کی صفیں چار ہیں دو ابرو ہیں
وَالْفَجْر کے پہلو میں لَیَالٍ عَشرٍ
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
آتے رہے انبیا کَما قِیْلَ لَھُمْ
وَالْخَاتَمُ حَقُّکُم ْ کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخرم میں ہوئی مہر کہ اَکْملْتُ لَکُمْ
بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھِلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کِس سحر کی ہے
چھبتی ہوئی جگر میں صَدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہَری ہَری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشتِ اَمل پَری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حَرم کہے
سونپا خدا تجھ کو یہ عظمت سَفر کی ہے
ہم گِرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابرِ کرم سے عرض یہ میزاب زر کی ہے
آغوش ِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ ِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ نو
یہ راہِ جاں فزا مرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ سُب گھڑی پھری
مر مر کے پھر یہ سل مرے سینے سے سر کی ہے
اللہ اکبر اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک
حسرت ِ ملائکہ کو جہاں وضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو!
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشاقِ رَوضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے
اللہ جانتا ہے کہ نیّت کِدھر کی ہے
یہ گھر یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھر و کہ صلا اچّھے گھر کی ہے
محبوب ربِ عرش ہے اس سَبز قبّہ میں
پہلو جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود!
بدلے ہیں پہر ے بدلی میں بارش دُرر کی ہے
سعدیں کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلّی قمر کی ہے
ستّر ہزار صبح ہیں ستّر ہزار شام
یوں بندگی ِ زلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے
رخصَت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسیِ تمنّا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمتِ عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایکبار بار
عاصی پڑے رہیں توصَلا عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضریِ بارگہ نصیب
مرجائیں تو حیاتِ اَبد عیش گھر کی ہے
مفلِس اور ایسے در سے پھر ے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدیہ گر کی ہے
جاناں پہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بے نواؤ خوب یہ صُورت گزر کی ہے
ہیں چتر و تخت سایہ ٔ دیوار و خاکِ در
شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کرّوفر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سر بخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجدارو ! خواب میں دیکھی کبھی یہ شئے
جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مر کے ٹھنڈ ے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصِی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو!
مکّہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شانِ جمالِ طیبۂ جاناں ہے نفع محض!
وسعت جلالِ مکّہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دُلھن مگر
ساری بَھار دلھنیوں میں دولھا کے گھر کی ہے
کعبہ دُلھن ہے تربتِ اطہر نئی دُلھن
یہ رشکِ آفتاب و ہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سُہاگن کنور کی ہے
سر سبزِ و صل یہ ہے سیہ پوشِ ہجروہ
چمکی دو پٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ماو شما تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
اپنا شرف دُعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خبر
زرنا خریدہ ایک کنیز اُن کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گِنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندی ِ جنّت پہ کس لیے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کِس اونچے گھر کی ہے
عرشِ بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری ہوئی شبیہ تِرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولھا کے سر کی ہے
عنبر زمیں عبیر ہو ا مشکِ تر غبار!
ادنیٰ سی یہ شناخت تری رہگزر کی ہے
سر کار ہم گنواروں میں طرزِ ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے
سر کار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیا ئیاں کہ یہ منھ اور ترے حضور
ہاں تو کریم ہے تری خو در گزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منھ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منھ تکوں
کیا پرسشِ اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے
بابِ عطا تو یہ ہے جو بہکا ادھر ادھر
کیسی خرابی اس نگھر ے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے ترا اور ترے سِوا
جو بارگاہ دیکھیے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بَل ہزار کج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت نہ دیں ، نہ دیں ، تری رویت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت نہ دیں ، نہ دیں ، تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صوٗرت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوٗری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ باد شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا تِرے دامانِ تر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے
کِس خاکِ پاک کی تو بنی خاک ِ پا شفا
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے
آبِ حیاتِ رُوح ہے زرقا کی بُوند بُوند
اکسیر اعظم مسِ دل خاک دَر کی ہے
ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے
لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضرت کی ہے
وہ دیکھو جگمگا تی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے !
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِی ْ
اُن پر درود جن سے نوید اِن بُشَر کی ہے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیے
اصلِ مُراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر ہے
کعبہ بھی ہے انہیں کی تجَلی کا یک ظِلّ
روشن انھیں کے عکس سے پتلی حجر کی ہے
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منٰی
لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے
مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
صدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروض ِ غرر کی ہے
ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز
پَردہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائِض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
شر خیر شور سور شرر دور نار نور!
بشرٰی کہ بارگاہ یہ خیر البشر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جَاؤ ک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
بد ہیں مگر انہیں کے ہیں باغی نہیں ہیں ہم
نجدی نہ آئے اس کو یہ منزل خطر کی ہے
تف نجدیت نہ کفر اسلام سب پہ حرف
کافر ادھر کی ہے نہ اُدھر کی ہے
حاکم حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مُراد کِس آیت خبر کی ہے
شکلِ بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو !
کیا قدر اُس خمیرۂ ماو مدر کی ہے
نورِ الٰہ کیا ہے محبّت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے
ذکرِ خدا جو اُن سے جُدا چاہو نجدیو!
واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے
بے اُن کے واسطہ کے خدا کچھ عطا کرے
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے
مقصود یہ ہیں آدم و نوح وخلیل سے
تخم ِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے
اُن کی نبوّت اُن کی اُبوّت ہے سب کو عام
امّ البشر عروس انہیں کے پسر کی ہے
ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صَدا بوا لبشر کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جِلا نماز
یہ کہتی ہے اذا ن جو پچھلے پہر کی ہے
دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
اُن پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے
اُن پر درود جن کو کَسِ بے کَساں کہیں
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ بارگاہ مالکِ جن و بشر کی ہے
شمس و قمر سَلام کو حاضر ہیں السّلام
خوبی انہیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے
سب بحر و بر سلام کو حاضِر ہیں السّلام
تملیک انہیں کے نام تو ہر بحر و بر کی ہے
سنگ وشجر سلام کو حاضر ہیں السّلام
کلمے سے ترزبان درخت و حجر کی ہے
عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ملجا یہ بارگاہ دُعا و اثر کی ہے
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السّلام
راحت انھیں کے قدموں میں شوریدہ سر کی ہے
خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السّلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے
سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ جلوہ گاہ مالکِ ہر خشک وتر کی ہے
سب کرو فر سلام کو حاضر ہیں السّلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کرّو فر کی ہے
اہل ِ نظر سلام کو حاضر ہیں السّلام
یہ گرد ہی تو سُرمہ سب اہلِ نظر کی ہے
آنسو بہا کہ یہ گئے کالے گنہ کے ڈھیر
ہاتھی ڈوباؤ جھیل یہاں چشم تر کی ہے
تیری قضا خلیفہ ٔ احکام ِ ذی الجلال
تیری رضا حلیف قضا و قدر کی ہے
یہ ساری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی
سَرد اس کی آب و تاب سے آتشِ سقر کی ہے
جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤ فٌ رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
دامن کا واسطہ مجھے اُس دھوٗپ سے بچا
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اِس دو پہر کی ہے
ماں دونوں بھائی بیٹے بھتیجے عزیز دوست
سب تجھ کو سونپے مِلک ہی سب تیرے گھر کی ہے
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیش خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
فضل خدا سے غیبِ شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے
کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولٰی کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے
اُ ن پر کتاب اتری بَیَا نًا لِّکلِّ شَیءٍ
تفصیل جس میں مَا عَبَر و مَا غَبَر کی ہے
آگے رہی عطا وہ بقدر طلب تو کیا
عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے
بے مانگے دینے والے کی نعمت میں غرق ہیں
مانگے سے جو ملے کسے فہم اس قدر کی ہے
احباب اس سے بڑ ھ کے تو شاید نہ پائیں عرض
نا کر وہ عرض عرض یہ طرزِ دگر کی ہے
دنداں کا نعت خواں ہوں پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مِرے آبِ گُہر کی ہے
دشتِ حرم میں رہنے دے صیّاد اگر تجھے
مٹی عزیز بلبُل ِ بے بال و پر کی ہے
یا رب رضا نہ احمد پار ینہ ہو کے جائے
یہ بارگاہ تیرے حبیبِ اَبَر کی ہے
توفیق دے کہ آگے نہ پیدا ہو خوئے بَد
تبدیل کر جو خصلتِ بد پیشتر کی ہے
آ کچھ سُنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّت ِ سوزِ جگر کی ہے
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے ملحدوں کی کیا مروّت کیجیے
ذِکر اُن کا چھیڑیے ہر بات میں چھیڑنا شیطان کا عادت کیجیے
مثل فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکرِ آیاتِ ولادت کیجیے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل یا رسول اللہ کی کثرت کیجیے
کیجیے چرچا انہیں کا صبح وشام جانِ کافِر پر قیامت کیجیے
آپ درگاہ ِ خُدا میں ہیں وجیہ ہاں شفاعت بالوجاہت کیجے
حق تمہیں فرما چکا اپنا حبیب اب شفاعت بالمحبّت کیجیے
اذن کب کا مل چکا اب تو حضور ہم غریبوں کی شفاعت کیجیے
ملحدوں کا شک نِکل جائے حضور جانبِ مَہ پھر اشارت کیجیے
شرک ٹھرے جس میں تعظیم حبیب اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجیے
ظالمو! محبوب کا حق تھا یہی عشق کے بدلے عداوت کیجیے
والضحٰے حجرات الم نشرح سے پھر مومنو! اتمامِ حجّت کیجیے
بیٹھتے اٹھتے حضور پاک سے التجا و استعا نت کیجیے
یا رسول اللہ دُہائی آپ کی گوشمالِ اہلِ بدعت کیجیے
غوثِ اعظم آپ سے فریاد ہے زندہ پھر یہ پاک مِلّت کیجیے
یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہٰی اولیا کو حکمِ نصرت کیجیے
میرے آقا حضرتِ اچّھے میاں
ہو رضا اچّھا وہ صوٗرت کیجیے
حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیے نار سے بچنے کی صوٗرت کیجیے
اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجیے
اُن کے با ملاحت پر نثار شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے
اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوا نو ! کچھ تو ہمّت کیجیے
پھیر دیجیے پنجۂ دیوِ لعین مصطفٰے کے بل پہ طاقت کیجیے
ڈوب کر یادِ لبِ شاداب میں آب ِکوثر کی سباحت کیجیے
یادِ قیامت کرتے اٹھیے قبر سے جانِ محشر پر قیامت کیجیے
اُن کے در پر بیٹھے بن کر فقیر بے نواؤ فکرِ ثروت کیجیے
جِس کا حسن اللہ کو بھی بَھا گیا ایسے پیارے سے محبّت کیجیے
حیّ باقی جس کی کرتا ہے ثنا مرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے
عرش پر جس کی کمانیں چڑھ گئیں صَدقے اس باز و پہ قوّت کیجیے
نیم واطیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ بلبلو! پاس نزاکت کیجیے
سر سے گرتا ہے ابھی بارِ گناہ خم ذرا فرقِ ارادت کیجیے
آنکھ تو اٹھتی نہیں کیا دیں جواب ہم پہ بے پرسش ہی رحمت کیجیے
عذر بد تر ازگنہ کا ذکر کیا بے سبب ہم پر عنایت کیجیے
نعرہ کیجیے یار سول اللہ کا مفلسو ! سامان ِ دولت کیجیے
ہم تمہارے ہو کے کس کے پاس جائیں صَدقہ شہزادوں کا رحمت کیجیے
مَن ْ رَاٰنِیْ قَد ْ رَأ ی الحق جو کہے کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے
عالِم عِلم دو عالم ہیں حضور آپ سے کیا عرض حاجت کیجیے
آپ سلطان ِ جہاں ہم بے نوا یاد ہم کو وقتِ نِعمت کیجیے
تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت کیجیے
دَر بدر کب تک پھریں خستہ خراب طیبہ میں مدفن عنایت کیجیے
ہر برس و ہ قافلوں کی دھوم دھام آہ سینے اور غفلت کیجیے
پھر پلٹ کر منھ نہ اُس جانب کیا سچ ہے اور دعوائے الفت کیجیے
اَقربا حُبِّ وطن بے ہمتی آہ کِس کِس کی شکایت کیجیے
اب تو آقا منھ دِکھانے کا نہیں کِس طرح رفعِ ندامت کیجیے
اپنے ہاتھوں خود لٹا بیٹھے ہیں گھر کس پہ دعوائے بضاعت کیجیے
کس سے کہیے کیا کیا ۔ کیا ہوگا خود ہی اپنے پَر ملامت کیجیے
عرض کا بھی اب تو منھ پڑتا نہیں کیا علاج ِ دردِ فرقت کیجیے
اپنی اک میٹھی نظر کے شہد سے چارۂ زہرِ مصیبت کیجیے
دے خدا ہمت کہ یہ جان حزیں آپ پر داریں وہ صوٗرت کیجیے
آپ ہم سے بڑھ کے ہم پر مہرباں ہم کریں جرم آپ رحمت کیجیے
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
یا د اس کی اپنی عادت کیجیے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تِری مجرم کیا بات بَنا ئی ہے
سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
یوں تو سب انہیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خا ص اُن کی کمائی ہے
زائر گئے بھی کب کے دِن ڈھلنے پہ ہے پیارے
اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے
بازار عملِ میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سَمائی ہے
گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولٰی
رو رو کے شفاعت کی تہمید اٹھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالمِ کیا دھونی رَمائی ہے
مجرم کو نہ شر ماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے
اب آپ ہی سنبھالیں توکام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے
اے ٔ عشق تِرے صدقے جلنے سے چُھٹے سَستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کر لے
تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پَرائی ہے
ہم دل جلے ہیں کس کے ہَٹ فتنوں کے پر کالے
کیوں پھونک دوں اِک اُف سے کیا آگ لگائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد
ہم عِشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے ۔
نہ عرشِ ایمن نہ اِنّی ْ ذاہبٌ میں مہمانی ہے
نہ لطف اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیب لَنْ تَرَانِی ہے
نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے
خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زِندگانی ہے
اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں
اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے
ہر اِک دیوار و دَر پر مہر نے کی ہے جبیں سائی
نگارِ مسجد ِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے
تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی
زبانِ بے زبانی ترجمان ِ خستہ جانی ہے
کھلے کیار از ِ محبوب و محب مستانِ غفلت پر
شراب قَدرَای الحق زیبِ جامِ مَنْ رَاٰنِی ہے
جہاں کی خاکروبی نے چمن آرا کیا تجھ کو
صبا ہم نے بھی اُن گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے
شہا کیا ذات تیری حق نما ہے فردِ امکاں میں
کہ تجھ سے کوئی اوّل ہے نہ تیرا کوئی ثانی ہے
کہاں اس کو شکِ جانِ جناں میں زَر کی نقاشی
اِرم کے طائرِ رنگِ پَریدہ کی نشانی ہے
ذِیابٌ فی ثِیابٌ لب پہ کلمہ دِل میں گستاخی
سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے
یہ اکثر ساتھ اُن کے شانہ و مسواک کا رہنا
بتاتا ہے کہ دل ریشوں پہ زائد مہربانی ہے
اسی سرکار سے دنیا و دیں ملتے ہیں سائل کو
یہی دربارِ عالی کنز آمال و امانی ہے
درو دیں صورتِ ہالہ محیط ِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امّت ِ عاصِی پہ اب رحمت کا پانی ہے
تعالیٰ اللہ استغنا ترے در کے گداؤں کا
کہ ان کو عار فرو شوکت ِ صاحب قِرانی ہے
وہ سر گرمِ شفاعت ہیں عرق افشاں ہے پیشانی
کرم کا عطر صَندل کی زمیں رحمت کی گھانی ہے
یہ سر ہوا ور وہ خاکِ در وہ خاکِ در ہو اور یہ سر
رضا وہ بھی اگر چاہیں تو اب دل میں یہ ٹھانی ہے
نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِی ہے
وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا رؤف و رحیم و علیم و علی ہے
ہے بیتاب جس کے لیے عرشِ اعظم وہ اس رہر وِ لا مکاں کی گلی ہے
نکیرین کرتے ہیں تعظیم میری فدا ہو کے تجھ پر یہ عزّت ملی ہے
طلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے
نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبی اَغِثْنِیْ اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے
صَبا ہے مجھے صر صر ِ دشتِ طیبہ اسی سے کلی میرے دل کی کِھلی ہے
تِرے چاروں ہمدم ہیں یک جان یک دل ابو بکر فاروق عثمان عَلی ہے
خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے
کروں عرض کیا تجھ سے اے عالمِ السِّر کہ تجھ پر مری حالتِ دل کھلی ہے
تمنّا ہے فرمائیے روزِ محشر یہ تیری رہائی کی چٹھی ملی ہے
جو مقصد زیارت کا برآئے پھر تو نہ کچھ قصد کیجیے یہ قصدِ دلی ہے
ترے درکا دَر باں ہے جبریل اعظم ترامدح خواں ہر نبی و ولی ہے
شفاعت کرے حشر میں جو رضا کی
سِوا تیرے کس کو یہ قدرت ملی ہے
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صَاف چرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مَت کیسی متوالی ہے
سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا ز ہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
آنکھیں ملنا جھنجھلا پڑنا لاکھوں جَمائی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے
جگنو چمکے پتا کھڑکے مجھ تنہا کا دِل دھڑکے
ڈر سمجھا ئے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
بادل گرجے بجلی تڑپے دَھک سے کلیجا ہو جائے
بن میں گھٹا کی بَھیانک صوٗرت کیسی کا لی کالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی کچھ سنبھلا پھر اَوند ھے منھ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
ساتھی سَاتھی کہہ کے پکاروں ساتِھی ہو تو جو اب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پَٹکوں چل رے مولٰی والی ہے
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہار ے جی سے رفاقت پالی ہے
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سُورج ہو
دیکو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
دنیا کو تو کیا جانے یہ بس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اس مُردار پہ کیا للچا یا دنیا دیکھی بھالی ہے
وہ تو نہایت سَستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا
ہم مفلِس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اقبالی ہے
گنہ گاروں کو ہاتف سے نوید ِ خوش مآلی ہے
مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے
قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے
جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے
تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے
اسے بو کر ترے رب نے بِنا رحمت کی ڈالی ہے
تمہاری شرم سے شانِ جلال حق ٹپکتی ہے
خمِ گردن ہلالِ آسمانِ ذوالجلالی ہے
زہے خود گم جو گم ہونے پہ یہ ڈھونڈے کہ کیا پایا
ارے جب تک کہ پا نا ہے جبھی تک ہاتھ خالی ہے
میں اک محتا ج بے وقت وقعت گدا تیرے سگِ در کا
تری سرکار والا ہے تِرا در بار عالی ہے
تری بخشش پَسندی عذر جوئی توبہ خواہی سے
عموم ِ بے گناہی جرم شان ِ لا اُبالی ہے
ابو بکر و عمر عثمان و حیدر جس کے بلبل ہیں
ترا سروِ سہی اس گلبن ِ خوبی کی ڈالی ہے
رضا قِسمت ہی کھل جا ئے جو گیلاں سے خطاب آئے
کہ تو ادنیٰ سگِ درگاہ ِ خدام ِ معالی ہے
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
نہ ہو مایوس آتی ہے صَدا گورِ غریباں سے
بنی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دودن کی اجالی ہے
ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی سر پر
کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے
اندھیرا گھر اکیلی جان دَم گھٹتا دل اُکتا تا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
زمین تپتی کٹیلی راہ بَھاری بوجھ گھائل پاؤں
مصیبت جھیلنے والے تِرا اللہ والی ہے
نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی
ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
رضان منزل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا سبھی کو ہے
تم اس کو روتے ہو یہ کہو یاں ہاتھ خالی ہے
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بوٗ سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عِشق ِ چشم والا
کباب ِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
انہیں کی بوٗ مایۂ سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انہیں سے گلشن مہک رہے ہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا !
حیات جاں کا رکاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشان عرش اعلٰے
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے ناز ک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوزِ جگر سے جاں تک ہے طالبِ جلوۂ مُبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یارو!
بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکِل جواب میں ہے
خدا ئے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچا لو آکر شفیع محشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلِسو ! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں امنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرّہ بس اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قد ر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ مین آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے
بزمِ ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو
ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے
عرش پہ جا کے مرغِ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے
عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دَھام
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے
اِک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ !
گلبن ِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے
تجھ سا سیاہ کار کون اُ ن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان
پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
شان ِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز
سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اڑان ہے
بارِ جلال اٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہُوا
یوں تو یہ ماہِ سبزۂ رنگ نظروں میں دھان پان ہے
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عَبد مصطفٰے
تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے