دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیمِ گستاخ آنچلوں

دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیمِ گستاخ آنچلوں سے
غلاف ِمشکیں جو اُڑ رہا تھا غَزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حسن تزیین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین!
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دوپٹے دھانی چنُے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پُر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رہ گزر کو پائیں؟!
ہمارے دل حُوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم؟!
جب ان کو جُھرمٹ میں لے کے قدسی جِناں کا دولہا بنا رہے تھے
قصیدۂ معراج حصہ 3