عشق کے چراغ جل گئے

عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے

ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے

جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے

روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے

دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے

ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے

ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے

ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے

ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے