کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پَھیر میں ہو

کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پَھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو! کدھر سے آئے کدھر گئے تھے؟
اُدھر سے تھیں نذرِ شَہ نمازیں اُدھر سے انعامِ خُسْروِی میں
سلام ورحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پُر نُور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گُفتن، تو گوش کو حسرتِ شُیدخُن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا، تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ، بہشت کی سَیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
سُرُوْر ِمقدم کے روشنی تھی کہ تَابِشوں سے مہِ عَرَب کی
جِاَپں کے گلشن تھے جَھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے، ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوش ِضدَّیْن تھا کہ پودے کشاکش ِارّہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نبئ رحمت !شفیعِ اُمت رضا پہ للہ !ہو عنایت!
اِسے بھی اُن خِلْعَتوں سے حِہّے، جو خاص رحمت کے وَاں بٹے تھے
ثَنائے سرکار ،ہے وظیفہ، قبولِ سرکار، ہے تمنا!!!
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیئے تھے
Qaseeda mer’aa/11