خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان

خدا کا خوف ذکر ِ مصطفٰے سرمایۂ عثمان
سرور و کیف قربِ مصطفٰے سرمایہ ٔ عثمان

بیان سرکاری کی مدحت سدا، پیرا یۂ عثمان
نہ تھا ایسا نہ اب ہوگا کوئی ہم پایہ ٔ عثمان

نہ تھا آئینہ ٔ دل پر غبار ِ عصبیت ان کے
اگر چہ تھے حریفِ ہاشمی اَجداد سب ان کے

صفائے باطنی ان کا مکدر ہو نہ سکتا تھا
کوئی اس دل میں اب تخمِ رقابت بُو نہ سکتا تھا

جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نُور میں آئے
قرابت وہ مِلی ، دو نور والے آپ کہلائے

قدم ہجرت کا مکہ سے نکالا آپ نے پہلے
حبش کو دین کا بخشا اُجالا آپ نے پہلے

وہ دورِ جاہلیت جو بھرا تھا آبِ گلگوں سے
حیاء والے کے لب نا آشنا تھے اس کے افسوس سے

حیاء کے ذکر کا جب بھی کوئی عنوان ہوتا تھا
لبِ شاہِ مدینہ پر فقط عثمان ہوتا تھا

نبی ارشاد فرماتے کتابت آپ کرتے تھے
بڑی دشوار تھی منزل، بآسانی گذرتے تھے

اشارہ پر نبی کے مال سب قربان ہوجاتا
جو حاتم آج ہوتا ، آپ کا دربان ہوجاتا

یہودی کو دیا کل مال، شیریں آب کے بدلے
ہوئے سیراب تشنہ لب مسلمان ، بیر رومہ سے

بنے وہ بیعت ِ رضوان میں تاجِ فخر کا طُرّہ
نبی نے ہاتھ بیعت میں جب ان کے نام پر رکھا

مراکش سے ملے کابل کے ڈانڈے عہد میں جن کے
ہوئے اسلام کے زیرِ نگیں ، دنیا کے یہ حصے

طرابلس اور افریقہ بنا اِسلام کا حصہ
بغاوت مصر کی توڑی ، فتح قبرص بھی کر ڈالا

ہو ا جب کوہِ لرزاں، مصطفٰے نے اس سے فرمایا
کہ تجھ پر اِک نبی، صدیق اِک اور اِک شہید آیا

شہادت معتبر تھی ، ایک دن ایسا بھی ہونا تھا
سرِ تسلیم اپنا خم کیا ، ایسا بھی ہونا تھا

شہادت کا وہ لمحہ، وہ تحمّل ، صبر کا پیکر
جو اخلاقِ کریمانہ کا ٹھرا ٓخری منظر

فَسَیَکْفِیْکَھُمْ آیت پہ جب خوں آپ کا ٹپکا
قراں کا ہر ورق دامن کو پھیلائے ہوئے لپکا

قیامت میں کریں گے لوگ جب قرآن کی باتیں
کریں گے ساتھ ہی وہ حضرتِ عثمان کی باتیں

اُتر کر خون کے دریا میں جو کوئی اُبھرتا ہے
ہٹا کر زیست کے پردے زیارت حق کی کرتا ہے

نہیں مرتا ادیب اس راہ میں ، جب کوئی مرتا ہے
وہ کب مرتا ہے جو راہِ شہادت سے گزرتا ہے