کسی کا تیر نظر دل کے پار ہو کے رہا

کسی کا تیر نظر دل کے پار ہو کے رہا
تو دل نے دم بھی نہ مارا نثار ہو کے رہا

تمہاری سوزنِ مژگاں نے کی وہ بخیہ گری
کہ رختِ ہستی مرا تار تار ہو کے رہا

تمہارے روئے منور کی روشنی کی قسم
کہ اس سے قلبِ سیاہ جلوہ بار ہو کے رہا

کھلا تو خانۂ دل میں وہ چھپ کے بیٹھ رہا
چُھپا تو ہر جگہ وہ آشکار ہو کے رہا

اگر چہ حسن کی حیرت اُسے ملی نہ ملی
مگر وہ عشق کا آئینہ دار ہو کے رہا