نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے

نہ خانقاہ کے باہر نہ خانقاہ میں ہے
جو بُو تراب کا رتبہ مری نگاہ میں ہے
یہی ہے دولتِ ایمان و عِلم و عقل و یقین
علی کو جس نے پکارا ہے وہ پنا ہ میں ہے

گر جہانِ فکر میں درکار ہے اِک اِنقلاب
فکر کی راہوں سے اٹھ کر عشق کا ہو ہمر کاب
چاک کر دامن فسونِ فلسفہ کا ، مارکر
ایک نعرہ یا علی ؓ مشکل کشاء یا بُو تُراب ؓ

بحالِ غم دلِ بے تاب را قرار، علی
کریم و بندہ نواز و کرم شعار، علی
خراب حال و خطا کار و دلِ شکستہ را
خطا معاف، خدا ترس، غمگسار، علی

ہر گردشِ ایّام پہ جو غالب ہے
ہر نعرہ ٔ انقلاب کا جو قالب ہے
ہر لمحۂ مشکل میں طلب ہے جس کی
وہ نام، علی ابنِ ابی طالب ہے

زِ خاکِ پائے علی ما فلک مدار شدیم
زِ لطفِ چشمِ علی فصلِ نَو بہار شدیم
ہیں چہ فیض رسیدی زِ بوسۂ نعلین
گناہ گار کہ بودیم و تاجدار شدیم