اۓ خدا اۓ مہربان مَولائے مَن
اۓ انیسِ خلوتِ شہبائے مَن
اۓ کریم اۓ کارسازِ بے نیاز
دائم الاحسان شہِ بندہ نواز
اۓ کہ نامت راحتِ جان ودِلم
اۓ کہ فضلِ تو کفیلِ مُشکلم
ماخطاآریم و تو بخشش کُنی
نعرۂ اِنّی غفورٌ مے زنی
اللہ ہو، اللہ ہو ،بندے ہر دم اللہ ہو
پیچھے پیچھے موت ہے تیرے آگے آگے ہو تم
الہپ الہگ، بد ے ہر الہه
نہ کچھ تیرا نہ کچھ میرا اور غافل انسان
سب کچھ جانے جان بوجھ کر بنے ہیں کیوں انجان
دارا اور سکندر جیسے شہنشاہ عالیشان
لاکھوں من مٹی میں سو گئے بڑے بڑے سلطان
تیری کیا اوقات ہے بندے ، کچھ بھی نہیں ہے تو
الہی الہچ، بد ے ہر الہه
تیرا میراجیون جیسے ،چلتے پھرتے سائے
جوں جوں بڑھتی جائے عمریا ، جیون گھٹتا جائے
اِک سانس کا پنچھی ہے تو کون تجھے سمجھائے ؟
رہ جائے گا پنجرہ خالی ، اُڑ جائے گی روح
الہے الہڑ، بد ے ہر الہه
تنہا قبر میں ہوگا تیرا کوئی نہ ہوگا میت
اللہ ہی اللہ بول سلامت جیون بازی جیت
ڈھلتا سورج روز سنائے تجھے فَنا کے گیت !
نیند سے آنکھیں کھول تمنا کیسی ہے یہ پِیت؟
اللہ تیرا جاگ رہا ہے اور تو سوتا ہے تو
الہی الہو، بدیے ہر الہه
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
اک پل نہ غافل ہوئیے صبح تے شام لیے
ہر شے دا خالق اللہ مالک تے رازق اللہ عزّوجلّ
اوہدی عبادت کریے اس توں انعام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
مشکل نوں ٹالن والا سب نوں اوہ پالن والا
بن کے ہمیشہ اس دے سچے غلام رہیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
نبیاں دا ناصر اللہ ولیاں دا رہبر اللہ
اللہ دی راہ تے مریے عالی مقام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
رب دے پیارے اُتے ہاں عربی لاڈلے اُتے
رج رج درود پڑھیے کملی نوں تھام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
دامن ولیاں دا پھڑیے اللہ نوں راضی کریے
توحیدی میخانے چوں بھر بھر کے جام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
آکھاں امین آکھاں نال یقین آکھاں
قائم توحید اُتے زندگی تمام رہیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
اللہ اللہ شہہ ِ کونین جلالت تیری
فرش کیا عرش پہ جاری حکومت تیری
جھولیاں کھول کے بے سمجھے نہیں دوڑ آئے !
ہمیں معلوم ہے دولت تِری ، عادت تیری
توہی ہے مُلکِ خدا ،مِلکِ خدا کا مالک
راج تیرا ہے زمانے میں حکومت تیری
مجمعِ حشر میں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے
ڈھونڈنے نکلی ہے مجرم کو شفاعت تیری
چین پائیں گے تڑپتے ہوئے دل محشر میں
غم کسے یاد رہے دیکھ کے صورت تیری
دیکھنے والے کہا کرتے ہیں اللہ اللہ
یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری
ہم نے مانا کہ گناہوں کی نہیں حد لیکن
تو ہے اُن کا تو حسؔن ، تیری ہے جنت تیری
اُس کی تعریف محمد کے سِوا کون کرے
تو جہاں کہیں بھی ہے تو جہاں کہیں رہا
نہ خیال کی پہنچ ، نہ خِرد کو راستہ
نہ کمندِ آگہی سے بلند ہی رہا
کوئی جستجو میں گُم کوئی عرش تک رسا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
یہ مکان و لامکاں کی عبث ہے گفتگو
تو ہی نورِ مہر و مہ، تو ہی گل کا رنگ و بُو
رہا سب کے روبرو، رہی پھر بھی جستجو
کوئی راہ کھو گیا، کوئی تجھ کو پاگیا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
مجھے سرفراز کر، مرے بخت کو جَگا
جو عزیز ہو تجھے ، وہی کر مجھے عَطا
جو تجھے پسند ہو، اسی راہ پر چلا
جو ترے غضب میں ہوں ، مجھے ان سے رکھ جدا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
ازل سے کوئی نظام سارا چلا رہا ہے وہی خدا ہے
نبی کا صدقہ جو ہر کسی کو کھلا رہا ہے وہی خدا ہے
نجوم سے پُر فلک کی چادر اسی مصور کا ہے کرشمہ
جو چاند سورج کو آسماں پر سجا رہا ہے وہی خدا ہے
ہے پیار کتنا نبی سے رب کو بنایا ہے کیا کسی کو ایسا
جو لامکاں پر بھی مصطفٰے کو بلا رہا ہے وہی خدا ہے
دعا تڑپ کر تُو کر منور کہ دیکھ لے پھر حضور کا در
قبول کر کے دعا جو طیبہ دکھا رہا ہے وہی خدا ہے
آرزوؤں کا شجر دے یا خدا میرے خدا
پھر مجھے تازہ ثمر دے یا خدا میرے خدا
تھر تھراتا ہی رہوں تیرے جلال و خوف سے
خستہ دل اور چشمِ تر دے یا خدا میرے خدا
صحنِ کعبہ میں تلاوت اور کروں طوفِ حرم
مجھ کو پاکیزہ سفر دے یا خدا میرے خدا
سبز کرنوں کا اجالا میں اتاروں روح میں
میرے دل کو وہ نظر دے یا خدا میرے خدا
میں غریب شہرِ دل ہوں اور مغیلانِ جہاں
اک گلابوں کا شجر دے یا خدا میرے خدا
آنسوؤں کی بارشوں میں حمد کے اشعار ہوں
میرے لفظوں میں اثر دے یا خدا میرے خدا
دل کے آنگن میں بہاریں رقص کرتی ہی رہیں
خوشبوؤں کا وہ نگر دے یا خدا میرے خدا
اس اجاگر کو بفیضِ نعتِ جامی و رضا
اک کلامِ معتبر دے یا خدا میرے خدا
کلام میّسر نہیں
پوچھا گل سے یہ میں نے کہ اے خوبرو تجھ میں آئی کہاں سے نزاکت کی خو
یا د میں کس کی ہنستا ، مہکتا ہے تو ہنس کے بولا کہ اے طالبِ رنگ و بو
اللہ ، اللہ ، اللہ ،اللہ
عرض کی میں نے سُنبل سے اے مشکبو صبح کو کر کے شبنم سے تازہ وضو
جھومکر کون سا ذکر کرتا ہے تو سن کے کرنے لگا ومبدم ذکر ہو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
جب کہا میں نے بلبل سے ائے خوش گلو کیوں چمن میں چہکتا ہے تو چار سو
دیکھ کر گل کسے یا د کرتا ہے تو وجد میں بول اٹھا وحدہٗ وحدہٗ
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
جب پپیہے سے پوچھا کہ ائے نیم جاں یاد مین کس کی کہتا ہے تو “پی کہاں ”
کون ہے”پی ترا ” کیا ہے نام و نشاں بوں اٹھا بس وہی جس پہ شیدا ہے تو
اللہ ، اللہ ،اللہ اللہ
آکے جگنو جو چمکے مرے روبرو عرض کی میں نے ائے شاہد شعلہ رد کس کی طلعت ہے تو کس کا جلو ہ ہے تو یہ کہا جس کا جلوہ ہے یہ چار سو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ ،
میں نے پوچھا یہ پروانے سے دوبدو کس لیے شمع کی لو پہ جلتا ہے تو
شعلۂ نار میں کس کی ہے جستجو جلتے جلتے کہا اس نے یا نورُہٗ
اللہ ، اللہ ، اللہ ،اللہ
اعظمی گرچہ بے حد گناہگار ہے مجرم و بے عمل ہے خطا کار ہے
حق تعالیٰ مگر ایسا غفار ہے اس کی رحمت کا نعرہ ہے لاتقنطو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
کلام میّسر نہیں
تیرے ذکر سے مری آبرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تو میرے کلام کا رنگ و بو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو چٹک کے غنچہ کِھلے یہاں تو کرے وہ وصف تیرا بیاں
ہے چمن چمن تیری گفتگو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
مرے دل میں عشقِ نبی دیا جو دیا بجھا تھا جلا دیا
جسے چاہے جیسے نواز ے تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو طلب کا بھید ہیں جانتے وہ تجھی کو تجھ سے ہیں مانگتے
جو تیرے ہوئے ہیں انہیں کا تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
یہ ادیب میں تھا کہاں تیری شان کرتا جو یوں بیاں
ہے تیرے کرم سے یہ سرخرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تیری شان جل جلالہ
مرے رب کہاں پہ نہیں ہے تو
تیری شان جل جلالہ
تری ذرّے ذرّے میں ہے نمو
تری شان جل جلالہ
تری قدرتوں کا شمار کیا
تری وسعتوں کا حساب کیا
تو محیطِ عالم رنگ و بو
تری شان جل جلالہ
ترا فیض ، فیضِ عمیم ہے
تو ہی میرا ربّ کریم ہے
مرے دل میں تری آرزو
تری شان جل جلالہ
جسے چاہے تو وہ خلیل ہے
جسے تو نہ چاہے ذلیل ہے
ترے ہاتھ ذلت و آبرو
تری شان جل جلالہ
تیری تعریف کیسے کروں میں بیاں میری طاقت ہے کیا، میں تو کچھ بھی نہیں
مہر و ذرّے میں نسبت تو ہوتی ہے کچھ، مجھ کو نسبت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
میرے وہم و گمان سے بھی باہر ہے تو میں تو قطرہ نہیں اور بے کنار سمندر ہے تو
تیرا سودا ہوا مجھ کو یہ ہستی کہاں دل کی وسعت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تو سمایا جو مجھ میں ترا کام ہے میری ہستی ہے کچھ تو تیرا نام ہے
تیری رحمت نے رتبہ یہ بخشا مجھے میر ی جراءت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تیرا دامن جو پکڑا تو میں شہہ ہوا میرا اس کے سوا اور مطلب ہے کیا
تیرے در کا گدا ہوں تو ہوں شاہ میں ورنہ قسمت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تیرا در چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا جو یہاں کھوؤں گا تو کہاں پاؤں گا
تو خزانوں کا مالک ہے دیدے شہا اب کفایت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
میرا وارث ہے تو میرا مالک ہے تو میرا آقا ہے تو میرا داتا ہے تو
تیرے ہونے سے جینا ہے جینا مرا میری ہمت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
جس نے دیکھا مجھے کیوں نہ حیران ہو میں جو پہلا ساہُوں میری پہچان ہو
تیری آئینہ سازی کی ہے یہ جِلا ورنہ حیرت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تصور سے بھی آگے تک درو دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کُھل جائیں
میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں
جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کردے
مرے اندر کے غاروں پر ترے انوار کُھل جائیں
اتاروں معرفت کی ناؤ جب تیرے سمندر میں
تو مجھ پر باد بانوں کی طرح منجدھار کُھل جائیں
اندھیروں میں بھی تو اتنا نظر آنے لگے مجھ کو
کہ سناٹے بھی مانندِ لبِ اظہار کُھل جائیں
مرے مالک مرے حرفِ دعا کی لاج رکھ لینا
ملے تو بہ کو رستہ ، بابِ استغفار کُھل جائيں
مظفر وارثی کی اس قدر تجھ تک رسائی ہو
کہ اس کے ذہن پر سب معنیء افکار کُھل جائیں
تری عنایات پر خدایا نگاہ سب کی لگی ہوئی ہے
تری عنایات کی بدولت سبھی کی بگڑی بنی ہوئی ہے
تو آسمان و زمیں کا رب ہے ، سبھی کو مولا تری طلب ہے
تری غلامی ہی تیرے بندوں کو دوجہانوں کی خسروی ہے
تو حی و قیوم ہے الٰہی ہے چار سو تیری بادشاہی
تمام عالم ہے تیرا یا رب تو سارے عالم کی روشنی ہے
جو تیری قدرت کے ہیں مظاہر قدم قدم پر ہیں آشکارا
ترے کرشموں کی دھوم یار ب زمانے بھر میں مچی ہوئی ہے
تری ہی تسبیح میں مگن ہیں ہے ذکر تیرا ہر ایک لب پر
ہے کو بہ کو کوئلوں کی “کو کو” چمن میں بلبل چہک رہی ہے
تری ثناء کون کر سکے گا قدم یہاں کون دھر سکے گا
مگر جسے بھی ہے تو نے چاہا اسے یہ توفیق بخش دی ہے
یونہی رہے اس پہ چشمِ رحمت قلم رہے اس کا وقفِ مدحت
کہ تیرا یامین تو ہمیشہ ترے کرم ہی کا مکتجی ہے
تری شان عم نوالہ ، اللہ جل جلالہ
ترے نام پراے مرے خدا مرا دل فدا مری جاں فدا
مری روح کی ہے یہی غذا ترانام لب پہ رہے سدا
ہو تری رضا مری آرزو اللہ جل جلالہ
تجھے بے نیازی کا واسطہ ہو قبول یہ مری التجا
کہ برائے احمد مجتبٰی ہو معاف میری ہر اک خطا
سر ِ حشر رہ جائے آبرو اللہ جل جلالہ
جو حساب روزِ حساب ہو مرے دائیں ہاتھ کتاب ہو
مرے لب پہ نعت جناب ہو نہ سوال ہو نہ جواب ہو
میں رہوں حضور کے روبرو اللہ جل جلالہ
میں گناہ گار ہوں ائے خدا کوئی نیک کام نہ کر سکا
کہ نہ ہو سکا ترا حق ادا بدل و فضل ہے بے بہا
ہو تری رضا مری آرزو اللہ جل جلالہ
یہ دعا کرو مرے دوستو کہ عطا ہو ذوق یہ نجم کو کبھی حمد ہو کبھی نعت ہو یہ دعا کرو ہاں دعا کرو
مری چشمِ تر رہے با وضو تری شان جل جلالہ
کلام میّسر نہیں
جو تصوّر میں نہیں جس کی نہیں کوئی خبر
اس کی تصویر بناؤں میں قلم سے کیونکر
وہ خیالوں میں اُتر جائے تو واسع کیسا
چند لفظوں میں سماجائے تو جامع کیسا
جس کے اِک نام کو سو نام سے تعبیر کریں
جس کے اِک حرف کو سو ڈھنگ سے تحریر کریں
وہ جو سبحان بھی ، رحمان بھی ، برہان بھی ہے
وہ جو دَیّان بھی ، حَنّان بھی ، مَنّان بھی ہے
عرش والا بھی وہی ، رَبّی َ الاعلی بھی وہی
زور آور بھی وہی، بخشنے والا بھی وہی
جو اسم ِ ذات ہَویدا ہو سرِ قِرْطاس
ہوا خیال منوّر،مہک گیا احساس
اُسی کے فکر میں گُم سُم ہے کائناتِ وجود
اُسی کے ذکر کی صورت ہے نغمئہ اَنفاس
اُسی کے ذکر سے ہے کاروانِ زیست رواں
اُسی کے حکم پہ ہے غیب و شُہود کی اساس
اگر ہیں نعمتیں اُس کی شمار سے باہر
توحکمتیں بھی ہیں اس کی ورائے عقل و قیاس
ہے اِرْتِبَاطِ عناصر اُسی کی قدرت سے
اُسی کے لطف سے قائم ہے اعتدالِ حواس
کیے خلا میں معلّق ثوابت و سیّار
بغیرِ چوب کیا خیمئہ فلک کو راس
بسا وہ رگ و پے میں کائنات کے ہے
کچھ اِس طرح گلوں میں نہاں ،ہو جیسے باس (خوشبو)
ہر ایک مؤمن و منکر کا وہ ہے رزق رساں
ہر ایک بے کس و درماندہ کا ہے قدر شناس
بڑھائی اُس نے زن و آدمی کی یوں توقیر
انہیں بنایا گیا ایک دوسرے کا لباس
مجھے شریک کرے کاش ایسے بندوں میں
جنہیں نہ خوف و خطر ہے کوئی نہ رنج و ہراس
اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکار تا ہوں میں
مقام جس کا ہے میری رگِ حیات کے پاس
کیا یہ خاص کرم اُس نے نوعِ انساں پر
بنادیا جو حبیب( ﷺ) اپنا غمگسارِاناس
حبیب (ﷺ)وہ جو بنا کائنات کا نوشہ
رسول (ﷺ)وہ جو ہوا اس کی شان کا عکّاس
حبیب ﷺوہ جو محمد ﷺبھی ہے تو احمد ﷺ بھی
سکھا گیا جو خدائی کو حمد و شکر کا سپاس
نبی ﷺ وہ جس کے لئے محملِ زمانہ رکا
نبی ﷺ وہ جس نے کیا لا مکاں میں اجلاس
کتاب اُس پہ اتاری تو وہ کتابِ مبیں
جو نورِ رُشد و ہدایت ہے، قاطع ِوسواس
اُسی نے مدحِ رسالت مآبﷺ کی خاطر
دیا گدازلب و لہجہ کو ، زباں کو مٹھاس
کرم ہو شاملِ حال اُس کا تو ہے اک نعمت
وگرنہ کربِ مسلسل ،طبعیت حسّاس
کوئی قریب سے کہتاہے ،میں ہوں تیرے ساتھ
ہجومِ غم میں کسی وقت بھی جو دل ہو ا اداس
تسلیاں مجھے ہر آن کوئی دیتا ہے
نہ کرسکیں گے ہر اساں مجھے کبھی غم وباس
عجیب ذکر الٰہی میں ہے اثر تائبؔ
مٹائے زیست کی تلخی، بجھائے روح کی پیاس
Comments are off for this post
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
خُدا کی ذات کو زیبا ہے شانِ یکتائی
اُسی نے جرأتِ اظہار مجھ کو فرمائی
اسی کے لطف سے شاعر بنا، ادیب ہوا
ثناء حضور کی لکھےو ہ خوش نصیب ہوا
یہ اس کی شان کہ اس کے حضور میں ہو کر
یہ دے رہا ہے صدا قلبِ مضطرب، رو کر
کریم ہے تو مجھے نُدرتِ بیاں دیدے
دہن میں حافظِ شیرا ز ؒ کی زباں دیدے
وہ نطق دے کہ ہر اک رنگ سے جُدا کردے
کرم سے مثنوی رومؒ کی اَدا کر دے
بنا دے خواب کی اقبال ؒ کے ، مجھے تعبیر
ہو پائے فکر میں مضبوط ، عشق کی زنجیر
ترے کرم سے نظر آئے حُسن ہر خامی
ہو میری طرزِ نِگارش، عبارتِ جامی ؒ
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین وصحابہ پہ جب آ بنی گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے |
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے
ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے
جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے
روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے
دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے
ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے
ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے
ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے
ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
کیا خوب ہے تیری آن بان ہر روز نئی ہے شان شان
ہے رشتہ نہ کوئی خاندان تو ربِّ جہاں میں عبد عبد
میں حمد کہوں بس حمد حمد میں حمد کہوں بس حمد حمد
میرے مولا میرے مولا
تجھ سے فریاد کرتے ہیں ہم
میرے مولیٰ کرم ہو کرم
میرے مولیٰ میرے مولیٰ
یہ زمیں اور یہ آسماں
ہے تو ہی مالکِ دو جہاں
سب پہ تو ہی تو ہے مہرباں
ہم ترے در سے جائیں کہاں
سب کی سنتا ہے تو ہی صدا
تو ہی رکھتا ہے سب کا بھرم
سب پاک ہیں تیرے نام نام
میں ذکر کروں ہر گام گام
کیا عقل کا اس میں کام کام
ہے بندا تیرا ہر فرد فرد
میں حمد کہوں بس حمد حمد
ہم کہ مجبوروں بے حال ہیں
ہم کہ رنجوروں بے حال ہیں
اپنے دامن میں آنسو ہیں بس
پاک کردے ہمارے نفس
ذکر تیرا جہاں بھی کریں
ایک پل میں ہوں آنکھیں یہ نم
بے کسوں کو سہارا ملے
ڈوبتوں کو کنارا ملے
سر سے طوفان پل میں ٹلے
جو ترا اک اشارہ ملے
تو جو کر دے مہربانیاں
دور ہوجائے ہر ایک غم
وحدت کا ہے جس میں راز راز
سینوں میں بجے وہ ساز ساز
جو تجھ پہ کرتے ہیں ناز ناز
وہ حمد کرے ہے حمد حمد
میں حمد کہوں بس حمد حمد
بھول بیٹھے ہیں تیرا کہا
تو نے قرآن میں جو لکھا
آج ہیں در بدر اس طرح
کوئی بکھرے لڑی جس طرح
ایک کر ہم کو بہرِ شہا
ہم نے خود پہ کیے ہیں ستم
کیا حمد کر سکے گی میری زبان تیری
ساری نشانیاں ہیں اے بے نشان تیری
عقل وشعور تک کی ہوتی نہیں رسائی
کیا ذات پاسکیں گے وہم وگمان تیری
کون و مکاں کی ہر شے لبّیک کہہ رہی ہے
ہر سمت گونجتی ہے پیہم اذان تیری
جو شے ہے صرف تیری اے خالقِ دو عالم
ہر ایک جسم تیرا ہر ایک جان تیری
ہے تیری کبریائی ثابت بہر قرینہ
باطن ہے شان تیری ظاہر ہے شان تیری
تیری ربوبیت کی آغوش ہے کشادہ
ہر امن کی امیں ہے بےشک امان تیری
خالد کو بندگی کا اِخلاص تو نے بخشا
چاہی ہے اِستِعانت اے مستعان تیری
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا
جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آر ہا ہے وہ ہی خدا ہے
وہ ہی ہے مشرق، وہ ہی ہے مغر ب، سفر کریں سب اسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
تلاش اس کونہ کر بُتوں میں وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ؟وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہر ے بٹھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ،وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانۂ لا شعور میں جگمگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو تاجِ و قار بخشے ،کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ہاتھوں پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
سفید اس کا ،سیا ہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے ،بجھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کس سے مانگیں، کہاں جائیں ، کس سے کہیں ، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے
سب کا داتا ہے تو ، سب کو دیتا ہے تو ، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے
کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے
جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے
کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی ، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی
رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزمِ عطا کون ہے
اولیا تیرے محتاج اے ربّ کل ، تیرے بندے ہیں سب انبیاء ورُسُل
ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری ، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے
میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں ، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں
اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو ، نامہ بر کیا بلا ہے، صبا کون ہے
ابتدا بھی وہی ، انتہا بھی وہی ، ناخدا بھی وہی ، ہے خدا بھی وہی
جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما ، اس اَحَد کے سوا دوسرا کون ہے
وہ حقائق ہوں اشیاء کے یا خشک وتر ، فہم وادراک کی زد میں ہیں سب ،مگر
ماسوا ایک اس ذاتِ بے رنگ کے ، فہم وادراک سے ماورٰی کون ہے
انبیا، اولیا، اہل بیت نبی ، تابعین وصحابہ پہ جب آ بنی
گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے
اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے ، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے
اے نصیرؔ اس کو تو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے
کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
عطا کرتُو شانِ کریمی کا صدقہ
عطا کردے شانِ رحیمی کا صدقہ
نہ مانگوں گا تجھ سے تو مانگوں گا کس سے
ترا ہوں میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
الٰہی ہمیشہ تو مسرور رکھنا
بلاؤں سے ہم کو بہت دور رکھنا
پریشانیاں ہم کو گھیرے ہوئے ہے
میں ان سے تیرا آسرا مانگتا ہوں
جو مفلس ہیں ان کو تو دولت عطا کر
جو بیمار ہیں ان کو صحت عطا کر
مریضوں کی خاطر شفا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
جو نادار ہیں کچھ نہیں جن کے پلّے
انہیں بھی دکھا دے حرم کے تو جلوے
حضوری ہو سب کی دعا مانگتاہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
وطن کے بھڑکتے شرارے بجھا دے
اے تو اخوت کا گلشن بنا دے
میں امن واماں کی ردا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
الٰہی تجھے واسطہ پنجتن کا
ہو شاداب غنچہ دلوں کے چمن کا
میں صدقہ غوث الورٰی مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جمال تیرا
ان کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس گیا ہے جس کے جمال تیرا
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھۓ
دل ہے سو چیز تیری جاں ہے سو مال تیرا
گو حکم تیرے لاکھوں یا ں ٹالتے رہے ہیں
لیکن ٹلا نہ ہر گز دل سے خیال تیرا
گلشن کے رنگ و بو نے تیرا پتا بتا یا
غنچے کی مسکراہٹ لائی پیام تیرا
کلام میّسر نہیں
کلام میّسر نہیں
میں تیرے کر م پہ جیے جارہا ہوں
یہ سانسیں جو اپنی رواں پا رہا ہوں
خطا کار ہوں اور بیمار مولا
میں تیرے کرم سے جلا پارہا ہوں
مجھے تیرے بندوں سے الفت ہے یارب
جو ہر دل عزیز اب ہوا جا رہا ہوں
مجھے پیار احکامِ رب سے بہت ہے
یقینًا اسی کا صلہ پا رہا ہوں
غموں کی ہے بارش مگر میں ہوں تنہا
کہ تنہائی سے اپنی گھبرا رہاہوں
نصؔیر اُس کی حمد و ثناء کر رہاہوں
بلند اپنے درجات کو پا رہا ہوں
Comments are off for this post
میں تیرے حُسنِ کرم اور عنایتوں کے نثار
ہو میرے رنگ میں سعدی کے گلستاں کی بہار
کلامِ عارف عرفی کا پیرہن بن جاؤں
میں زلفِ نعت کی خوشبو سے شب دلہن بن جاؤں
سِوا حضور کوئی خواب میں بھی آئے نہ غیر
طفیل بردۂ الطاف بر امامِ بوصیرؒ
تیرے کرم کے تصدّق، کر اور اِک احسان
کہ میری فکر پہ سایہ فگن رہیں حسّان ؓ
تمام عمر وہ نعتوں کا اہتمام رہے
کہ میرے گرد فرشتوں کا اژدھام رہے
طفیلِ شاہِ اُمم ، جن پہ صَد سَلام و درود
ادیب کا بھی ثناء میں مقام ہو محمُود
مقدر بانٹنے والا مقدر بانٹ دیتا ہے
کبھی قطرہ کبھی پورا سمندر بانٹ دیتا ہے
محبت اس کو ہو جائے تو پھر محبوب کی خاطر
زمین و آساں کا سارا لنگر بانٹ دیتا ہے
اگر محفوظ رکھنا چاہے اپنے گھر کو دشمن سے
ابابیلوں کے لشکر میں وہ کنکر بانٹ دیتا ہے
یہ ساری بے بسی ، کاسہ بدستی کیا تماشہ ہے؟
میرا مالک؛ اگر حصہ برابر بانٹ دیتا ہے
وہ جسکی آل کو امت نے عاشق تشنہ لب مارا
سنا ہے حشر میں وہ آب کوثر بانٹ دیتا ہے
نام ربِ انام ہے تیرا ہر جگہ فیض عام ہے تیرا لامکانی ہے تیرا وصف مگر قلبِ مومن مقام ہے تیرا تو ہی خالق ہے تو ہی مالک ہے جو بھی کچھ ہے تمام ہے تیرا تیری مرضی کبھی نہیں ٹلتی کتنا کامل نظام ہے تیرا جو ہے مشکل کشا بہر عالم میرے مولا وہ نام ہے تیرا تجربوں نے یہی بتایا ہے مہربانی ہی کام ہے تیرا لبِ خالد کی جاگ اُٹھی قسمت تذکرہ صبح و شام ہے تیرا |
وہ سب کا مالک ہے جس کا عرش معلیٰ
اللہ ہی اللہ ہے بس یارو اللہ ہی اللہ
ذہن و دل سے ایک پردہ سا ہٹتا جائے
اوراق روز و شب و وقت پلٹا جائے
دریا صحرا سورج چاند ستارے اس کے
منظر اور رتیں اس کی ہم سارے اس کے
اپنی پونجی اک پیشانی ایک مصلیٰ
اللہ ہی اللہ ہے بس یارو اللہ ہی اللہ
دیکھ رہا ہوں میں اپنا انجام مظفرؔ
میرے تن پر ہے پیلا احرام مظفرؔ
پاؤں کے انگوٹھے میں ہے لوہے کا چھلا
اللہ ہی اللہ ہے بس یارو اللہ اللہ
وہ راضی ہے تو پھر اہلِ جفا سے کچھ نہیں ہوگا
کسی ظالم کے جبرِ ناروا سے کچھ نہیں ہوگا
تُو وہ بیمار ہے جس کی شفا مکے میں لکّھی ہے
کہ اس تبدیلی ٔآب و ہوا سے کچھ نہیں ہوگا
مسیحا ایک ہے تیرا مدینے میں جو رہتا ہے
یہ سب قاتل ہیں اب ان کی دوا سے کچھ نہیں ہوگا
ترا معبود کیا پتھر کا بُت ہے ہل نہیں سکتا
وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں خدا سے کچھ نہیں ہوگا
چراغِ دل جلا اور پھر اُسے طوفان میں رکھ دے
خدا ہر شے پہ قادر ہے ہوا سے کچھ نہیں ہوگا
بہت اصحابِ فیل آئے جو باقی ہیں وہ آجائیں
یہی کعبہ رہے گا ابرھا سے کچھ نہیں ہوگا
ہے پاک رُتبہ فکر سے اس بے نیاز کا
کچھ دخل اقل کا ہے نہ کام امتیاز کا
شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجاب
کیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا
لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرے ہوئے
اللہ رے جگر ترے آگاہ راز کا
غش آ گیا کلیم سے مشتاق عشق کو
جلوہ بھی بے نیاز ہے اس بے نیاز کا
ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانِع کی صنعتیں
عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا
افلاک و ارض سب ترے فرماں پزیر ہیں
حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا
اِس بیکسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئی
شُہرہ سُنا جو رحمتِ بیکس نیاز کا
مانندِ شمع تیری طرف لو لگی رہے
دے لطف مری جان کو سوز و گداز کا
تو بےحساب بخش کے ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا
بندہ پے تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط
اللّہ کر علاج مری حرص و آز کا
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسن
بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کارساز کا
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
ہر خطا تو در گزر کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! مغفرت کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! کر دے پوری از پئے غوث و رضا رحمۃ اللہ علیہما
آرزوئے دید سرور بیکس و مجبور کی
زندگی اور موت کی ہے یا الٰہی کشمکش
جاں چلے تیری رضا پر بیکس و مجبور کی
اعلیٰ علیین میں یا رب ! اسے دینا جگہ
رُوح چلدے جب نکل کر بیکس و مجبور کی
یا خدا پوری تمنا ہو بقیع پاک کی
از پئے حسنین و حیدر بیکس و مجبور کی
واسطہ نور محمد ﷺ کا تجھے پیارے خدا !
گورِ تیرہ کر منور بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ کے میٹھے مدینے میں پئے غوث و رضا
حاضری ہو یا نبی ﷺ! ہر بیکس و مجبور کی
آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال! صدقہ فاطمہ رضی اللہ عنہا لال کا
دورساری آفتیں کر بیکس و مجبور کی
نفس و شیطانِ غالب آئے لو خبر اب جلد تر
یا رسول اللہ ﷺ! آکر بیکس و مجبور کی
جس کسی نے بھی دعاء کیواسطے یا رب !کہا
کر دے پوری آرزو ہر بیکس و مجبور کی
بہر شاہ کربلا ہو دور آقاﷺ ہر بلا
اے حبیب ﷺ ربِ داور! بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ خود تشریف لائے اپنے بیکس کی طرف
“آہ” جب نکلی تڑپ کر بیکس و مجبور کی
اے مدینے کے مسافر ! تو کہانی درد کی
اُن سے کہنا خوب رو کر بیکس و مجبور کی
حال بگڑا ! رُوح تڑپی جب مدینہ چھپ گیا
جان تھی غمگین و مضطر بیکس و مجبور کی
آپ کے قدموں میں گر کر موت کی یاد مصطفٰے ﷺ
آرزو کب آئیگی بر؟ بیکس و مجبور کی
نامہ عطار میں حسن عمل کوئی نہیں
لاج رکھنا روزِ محشر بیکس و مجبور کی
ہر ایک لمحے کے اندر قیام تیرا ہے
زمانہ ہم جسے کہتے ہیں نام تیرا ہے
درائے اول و آخر ہے تو مرے مولٰی
نہ ابتدا نہ کوئی اختتام تیرا ہے
تری ثنا میں ہے مصروف بےزبانی بھی
سکوتِ وقت کے لب پہ کلام تیرا ہے
شعور نے سفرِ لاشعور کر دیکھا
تمام لفظ ہیں اسکے ’دوام‘ تیرا ہے
تمام عمر کٹے اِک طویل سجدے میں
اِس اختصار کی بخشش بھی کام تیرا ہے
بہت قریب ہے فطرت سے روحِ انسانی
ہر اِک نظام سے بڑھ کر نظام تیرا ہے
وہ خود کو جان گیا جس نے تجھ کو پہچانا
وہ محترم ہے جسے احترام تیراہے
ہر ایک سانس سے آواز آرہی ہے تری
مرا دھڑکتا ہُوا دل، پیام تیرا ہے
کہاں بیانِ مُظؔفّر کہاں بڑائی تری
جو تھا جو اب ہے جو ہوگا، تمام تیرا ہے
یہ زمین یہ فلک ان سے آگے تلک جتنی دنیائیں ہیں
سب میں تیری جھلک سب سب سے لیکن جدا
اۓ خدا اۓ خدا
ہر سحر پھوٹتی ہے رنگ سے ، سبزۂ و گل کھلیں سینہ سنگ سے
گونجتا ہے جہاں تیرے آہنگ سے
جس نے کی جستجو مل گیا اس کو تو سب کا رہنما
اۓ خدا اۓ خدا
ہر ستارے میں آباد سے اک جہاں ، چاند سورج تری روشنی کے نشاں
پتھروں کو بھی تو نے عطا کی زباں
جانور ، آدمی کر رہے ہیں سبھی تیری حمد و ثنا
اۓ خدا اۓ خدا
نور ہی نور بکھرا ہے کالک نہیں ، دوسرا کوئی حدگماں تک نہیں
تیری وحدانیت میں کوئی شک نہیں
لاکھ ہوں صورتیں ایک ہی رنگ میں تو ہے جلوہ نما
اے ٔ خدا اۓ خدا
سونپ کر منصب آدمیت مجھے تو نے بخشی ہے اپنی خلافت مجھے شوق سجدہ بھی کر اب عنایت مجھے
ہے میرا سر تیری دہلیز پر ہے یہی التجا
اۓ خدا اۓ خدا
یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کا ساتھ ہو
یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادی ٔدیدارِ حُسنِ مصطفٰے کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گور تیرہ کی جب آئے سخت رات
ان کےپیارے منہ کی صبح جانفزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب پڑے محشر میں شور دارو گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب زبانیں باہر آئیں پاس سے
صاحب کوثر شہِ جو دو سخا کا ساتھ ہو
یا الٰہی سرو مہری پر ہو جب خورشید حشر
سید بے سایہ کے ظلِ لو کا ساتھ ہو
یا الٰہی گرمیءِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامن محبوب ﷺ کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوش خلق ستار خطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب حساب خندہ بجار لائے
چشمِ گریاں شفیع ِ مرتضیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیاء کا ساتھ
یا الٰہی جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتاب ہاشمی نورُ الھدیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب سر شمشیر پر چلنا پڑے
ربِ سلم کہنے والے غمزدا کا ساتھ ہو
جب رضا خواب گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدارِ عشق مُصطفٰے ﷺکا ساتھ ہو
آرزوؤں کا شجر دے یا خدا میرے خدا
پھر مجھے تازہ ثمر دے یا خدا میرے خدا
تھر تھراتا ہی رہوں تیرے جلال و خوف سے
خستہ دل اور چشمِ تر دے یا خدا میرے خدا
صحنِ کعبہ میں تلاوت اور کروں طوفِ حرم
مجھ کو پاکیزہ سفر دے یا خدا میرے خدا
سبز کرنوں کا اجالا میں اتاروں روح میں
میرے دل کو وہ نظر دے یا خدا میرے خدا
میں غریب شہرِ دل ہوں اور مغیلانِ جہاں
اک گلابوں کا شجر دے یا خدا میرے خدا
آنسوؤں کی بارشوں میں حمد کے اشعار ہوں
میرے لفظوں میں اثر دے یا خدا میرے خدا
دل کے آنگن میں بہاریں رقص کرتی ہی رہیں
خوشبوؤں کا وہ نگر دے یا خدا میرے خدا
اس اجاگر کو بفیضِ نعتِ جامی و رضا
اک کلامِ معتبر دے یا خدا میرے خدا
ازل سے کوئی نظام سارا چلا رہا ہے وہی خدا ہے
نبی کا صدقہ جو ہر کسی کو کھلا رہا ہے وہی خدا ہے
نجوم سے پُر فلک کی چادر اسی مصور کا ہے کرشمہ
جو چاند سورج کو آسماں پر سجا رہا ہے وہی خدا ہے
ہے پیار کتنا نبی سے رب کو بنایا ہے کیا کسی کو ایسا
جو لامکاں پر بھی مصطفٰے کو بلا رہا ہے وہی خدا ہے
دعا تڑپ کر تُو کر منور کہ دیکھ لے پھر حضور کا در
قبول کر کے دعا جو طیبہ دکھا رہا ہے وہی خدا ہے
اُس کی تعریف محمد کے سِوا کون کرے
تو جہاں کہیں بھی ہے تو جہاں کہیں رہا
نہ خیال کی پہنچ ، نہ خِرد کو راستہ
نہ کمندِ آگہی سے بلند ہی رہا
کوئی جستجو میں گُم کوئی عرش تک رسا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
یہ مکان و لامکاں کی عبث ہے گفتگو
تو ہی نورِ مہر و مہ، تو ہی گل کا رنگ و بُو
رہا سب کے روبرو، رہی پھر بھی جستجو
کوئی راہ کھو گیا، کوئی تجھ کو پاگیا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
مجھے سرفراز کر، مرے بخت کو جَگا
جو عزیز ہو تجھے ، وہی کر مجھے عَطا
جو تجھے پسند ہو، اسی راہ پر چلا
جو ترے غضب میں ہوں ، مجھے ان سے رکھ جدا
وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
اک پل نہ غافل ہوئیے صبح تے شام لیے
ہر شے دا خالق اللہ مالک تے رازق اللہ عزّوجلّ
اوہدی عبادت کریے اس توں انعام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
مشکل نوں ٹالن والا سب نوں اوہ پالن والا
بن کے ہمیشہ اس دے سچے غلام رہیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
نبیاں دا ناصر اللہ ولیاں دا رہبر اللہ
اللہ دی راہ تے مریے عالی مقام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
رب دے پیارے اُتے ہاں عربی لاڈلے اُتے
رج رج درود پڑھیے کملی نوں تھام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
دامن ولیاں دا پھڑیے اللہ نوں راضی کریے
توحیدی میخانے چوں بھر بھر کے جام لیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
آکھاں امین آکھاں نال یقین آکھاں
قائم توحید اُتے زندگی تمام رہیے
اللہ دا نام لیے مولا دا نام لیے
اللہ ہو، اللہ ہو ،بندے ہر دم اللہ ہو
پیچھے پیچھے موت ہے تیرے آگے آگے ہو تم
الہپ الہگ، بد ے ہر الہه
نہ کچھ تیرا نہ کچھ میرا اور غافل انسان
سب کچھ جانے جان بوجھ کر بنے ہیں کیوں انجان
دارا اور سکندر جیسے شہنشاہ عالیشان
لاکھوں من مٹی میں سو گئے بڑے بڑے سلطان
تیری کیا اوقات ہے بندے ، کچھ بھی نہیں ہے تو
الہی الہچ، بد ے ہر الہه
تیرا میراجیون جیسے ،چلتے پھرتے سائے
جوں جوں بڑھتی جائے عمریا ، جیون گھٹتا جائے
اِک سانس کا پنچھی ہے تو کون تجھے سمجھائے ؟
رہ جائے گا پنجرہ خالی ، اُڑ جائے گی روح
الہے الہڑ، بد ے ہر الہه
تنہا قبر میں ہوگا تیرا کوئی نہ ہوگا میت
اللہ ہی اللہ بول سلامت جیون بازی جیت
ڈھلتا سورج روز سنائے تجھے فَنا کے گیت !
نیند سے آنکھیں کھول تمنا کیسی ہے یہ پِیت؟
اللہ تیرا جاگ رہا ہے اور تو سوتا ہے تو
الہی الہو، بدیے ہر الہه
اۓ خدا اۓ مہربان مَولائے مَن
اۓ انیسِ خلوتِ شہبائے مَن
اۓ کریم اۓ کارسازِ بے نیاز
دائم الاحسان شہِ بندہ نواز
اۓ کہ نامت راحتِ جان ودِلم
اۓ کہ فضلِ تو کفیلِ مُشکلم
ماخطاآریم و تو بخشش کُنی
نعرۂ اِنّی غفورٌ مے زنی
پوچھا گل سے یہ میں نے کہ اے خوبرو تجھ میں آئی کہاں سے نزاکت کی خو
یا د میں کس کی ہنستا ، مہکتا ہے تو ہنس کے بولا کہ اے طالبِ رنگ و بو
اللہ ، اللہ ، اللہ ،اللہ
عرض کی میں نے سُنبل سے اے مشکبو صبح کو کر کے شبنم سے تازہ وضو
جھومکر کون سا ذکر کرتا ہے تو سن کے کرنے لگا ومبدم ذکر ہو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
جب کہا میں نے بلبل سے ائے خوش گلو کیوں چمن میں چہکتا ہے تو چار سو
دیکھ کر گل کسے یا د کرتا ہے تو وجد میں بول اٹھا وحدہٗ وحدہٗ
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
جب پپیہے سے پوچھا کہ ائے نیم جاں یاد مین کس کی کہتا ہے تو “پی کہاں ”
کون ہے”پی ترا ” کیا ہے نام و نشاں بوں اٹھا بس وہی جس پہ شیدا ہے تو
اللہ ، اللہ ،اللہ اللہ
آکے جگنو جو چمکے مرے روبرو عرض کی میں نے ائے شاہد شعلہ رد کس کی طلعت ہے تو کس کا جلو ہ ہے تو یہ کہا جس کا جلوہ ہے یہ چار سو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ ،
میں نے پوچھا یہ پروانے سے دوبدو کس لیے شمع کی لو پہ جلتا ہے تو
شعلۂ نار میں کس کی ہے جستجو جلتے جلتے کہا اس نے یا نورُہٗ
اللہ ، اللہ ، اللہ ،اللہ
اعظمی گرچہ بے حد گناہگار ہے مجرم و بے عمل ہے خطا کار ہے
حق تعالیٰ مگر ایسا غفار ہے اس کی رحمت کا نعرہ ہے لاتقنطو
اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ
تری شان عم نوالہ ، اللہ جل جلالہ
ترے نام پراے مرے خدا مرا دل فدا مری جاں فدا
مری روح کی ہے یہی غذا ترانام لب پہ رہے سدا
ہو تری رضا مری آرزو اللہ جل جلالہ
تجھے بے نیازی کا واسطہ ہو قبول یہ مری التجا
کہ برائے احمد مجتبٰی ہو معاف میری ہر اک خطا
سر ِ حشر رہ جائے آبرو اللہ جل جلالہ
جو حساب روزِ حساب ہو مرے دائیں ہاتھ کتاب ہو
مرے لب پہ نعت جناب ہو نہ سوال ہو نہ جواب ہو
میں رہوں حضور کے روبرو اللہ جل جلالہ
میں گناہ گار ہوں ائے خدا کوئی نیک کام نہ کر سکا
کہ نہ ہو سکا ترا حق ادا بدل و فضل ہے بے بہا
ہو تری رضا مری آرزو اللہ جل جلالہ
یہ دعا کرو مرے دوستو کہ عطا ہو ذوق یہ نجم کو کبھی حمد ہو کبھی نعت ہو یہ دعا کرو ہاں دعا کرو
مری چشمِ تر رہے با وضو تری شان جل جلالہ
تری عنایات پر خدایا نگاہ سب کی لگی ہوئی ہے
تری عنایات کی بدولت سبھی کی بگڑی بنی ہوئی ہے
تو آسمان و زمیں کا رب ہے ، سبھی کو مولا تری طلب ہے
تری غلامی ہی تیرے بندوں کو دوجہانوں کی خسروی ہے
تو حی و قیوم ہے الٰہی ہے چار سو تیری بادشاہی
تمام عالم ہے تیرا یا رب تو سارے عالم کی روشنی ہے
جو تیری قدرت کے ہیں مظاہر قدم قدم پر ہیں آشکارا
ترے کرشموں کی دھوم یار ب زمانے بھر میں مچی ہوئی ہے
تری ہی تسبیح میں مگن ہیں ہے ذکر تیرا ہر ایک لب پر
ہے کو بہ کو کوئلوں کی “کو کو” چمن میں بلبل چہک رہی ہے
تری ثناء کون کر سکے گا قدم یہاں کون دھر سکے گا
مگر جسے بھی ہے تو نے چاہا اسے یہ توفیق بخش دی ہے
یونہی رہے اس پہ چشمِ رحمت قلم رہے اس کا وقفِ مدحت
کہ تیرا یامین تو ہمیشہ ترے کرم ہی کا مکتجی ہے
تیری شان جل جلالہ
مرے رب کہاں پہ نہیں ہے تو
تیری شان جل جلالہ
تری ذرّے ذرّے میں ہے نمو
تری شان جل جلالہ
تری قدرتوں کا شمار کیا
تری وسعتوں کا حساب کیا
تو محیطِ عالم رنگ و بو
تری شان جل جلالہ
ترا فیض ، فیضِ عمیم ہے
تو ہی میرا ربّ کریم ہے
مرے دل میں تری آرزو
تری شان جل جلالہ
جسے چاہے تو وہ خلیل ہے
جسے تو نہ چاہے ذلیل ہے
ترے ہاتھ ذلت و آبرو
تری شان جل جلالہ
تیرے ذکر سے مری آبرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
تو میرے کلام کا رنگ و بو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو چٹک کے غنچہ کِھلے یہاں تو کرے وہ وصف تیرا بیاں
ہے چمن چمن تیری گفتگو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
مرے دل میں عشقِ نبی دیا جو دیا بجھا تھا جلا دیا
جسے چاہے جیسے نواز ے تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو طلب کا بھید ہیں جانتے وہ تجھی کو تجھ سے ہیں مانگتے
جو تیرے ہوئے ہیں انہیں کا تو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
یہ ادیب میں تھا کہاں تیری شان کرتا جو یوں بیاں
ہے تیرے کرم سے یہ سرخرو تیری شان جَلّ جَلالہٗ
جو اسم ِ ذات ہَویدا ہو سرِ قِرْطاس
ہوا خیال منوّر،مہک گیا احساس
اُسی کے فکر میں گُم سُم ہے کائناتِ وجود
اُسی کے ذکر کی صورت ہے نغمئہ اَنفاس
اُسی کے ذکر سے ہے کاروانِ زیست رواں
اُسی کے حکم پہ ہے غیب و شُہود کی اساس
اگر ہیں نعمتیں اُس کی شمار سے باہر
توحکمتیں بھی ہیں اس کی ورائے عقل و قیاس
ہے اِرْتِبَاطِ عناصر اُسی کی قدرت سے
اُسی کے لطف سے قائم ہے اعتدالِ حواس
کیے خلا میں معلّق ثوابت و سیّار
بغیرِ چوب کیا خیمئہ فلک کو راس
بسا وہ رگ و پے میں کائنات کے ہے
کچھ اِس طرح گلوں میں نہاں ،ہو جیسے باس (خوشبو)
ہر ایک مؤمن و منکر کا وہ ہے رزق رساں
ہر ایک بے کس و درماندہ کا ہے قدر شناس
بڑھائی اُس نے زن و آدمی کی یوں توقیر
انہیں بنایا گیا ایک دوسرے کا لباس
مجھے شریک کرے کاش ایسے بندوں میں
جنہیں نہ خوف و خطر ہے کوئی نہ رنج و ہراس
اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکار تا ہوں میں
مقام جس کا ہے میری رگِ حیات کے پاس
کیا یہ خاص کرم اُس نے نوعِ انساں پر
بنادیا جو حبیب( ﷺ) اپنا غمگسارِاناس
حبیب (ﷺ)وہ جو بنا کائنات کا نوشہ
رسول (ﷺ)وہ جو ہوا اس کی شان کا عکّاس
حبیب ﷺوہ جو محمد ﷺبھی ہے تو احمد ﷺ بھی
سکھا گیا جو خدائی کو حمد و شکر کا سپاس
نبی ﷺ وہ جس کے لئے محملِ زمانہ رکا
نبی ﷺ وہ جس نے کیا لا مکاں میں اجلاس
کتاب اُس پہ اتاری تو وہ کتابِ مبیں
جو نورِ رُشد و ہدایت ہے، قاطع ِوسواس
اُسی نے مدحِ رسالت مآبﷺ کی خاطر
دیا گدازلب و لہجہ کو ، زباں کو مٹھاس
کرم ہو شاملِ حال اُس کا تو ہے اک نعمت
وگرنہ کربِ مسلسل ،طبعیت حسّاس
کوئی قریب سے کہتاہے ،میں ہوں تیرے ساتھ
ہجومِ غم میں کسی وقت بھی جو دل ہو ا اداس
تسلیاں مجھے ہر آن کوئی دیتا ہے
نہ کرسکیں گے ہر اساں مجھے کبھی غم وباس
عجیب ذکر الٰہی میں ہے اثر تائبؔ
مٹائے زیست کی تلخی، بجھائے روح کی پیاس
Comments are off for this post
جو تصوّر میں نہیں جس کی نہیں کوئی خبر
اس کی تصویر بناؤں میں قلم سے کیونکر
وہ خیالوں میں اُتر جائے تو واسع کیسا
چند لفظوں میں سماجائے تو جامع کیسا
جس کے اِک نام کو سو نام سے تعبیر کریں
جس کے اِک حرف کو سو ڈھنگ سے تحریر کریں
وہ جو سبحان بھی ، رحمان بھی ، برہان بھی ہے
وہ جو دَیّان بھی ، حَنّان بھی ، مَنّان بھی ہے
عرش والا بھی وہی ، رَبّی َ الاعلی بھی وہی
زور آور بھی وہی، بخشنے والا بھی وہی
خُدا کی ذات کو زیبا ہے شانِ یکتائی
اُسی نے جرأتِ اظہار مجھ کو فرمائی
اسی کے لطف سے شاعر بنا، ادیب ہوا
ثناء حضور کی لکھےو ہ خوش نصیب ہوا
یہ اس کی شان کہ اس کے حضور میں ہو کر
یہ دے رہا ہے صدا قلبِ مضطرب، رو کر
کریم ہے تو مجھے نُدرتِ بیاں دیدے
دہن میں حافظِ شیرا ز ؒ کی زباں دیدے
وہ نطق دے کہ ہر اک رنگ سے جُدا کردے
کرم سے مثنوی رومؒ کی اَدا کر دے
بنا دے خواب کی اقبال ؒ کے ، مجھے تعبیر
ہو پائے فکر میں مضبوط ، عشق کی زنجیر
ترے کرم سے نظر آئے حُسن ہر خامی
ہو میری طرزِ نِگارش، عبارتِ جامی ؒ
عشق کے چراغ جل گئے
ظلمتوں سے ہم نکل گئے
ان کے نقشِ پا پہ چل گئے
گر رہے تھے جو سنبھل گئے
جس طرف حضور چل دیئے
خار پھول میں بدل گئے
روئے مصطفٰے کی اِک کرن
ظلمتوں کے بَل نِکل گئے
دیکھ کر جمالِ مصطفٰے
سنگ دل جو تھے پگھل گئے
ان کا ذکر سن کے رنج و غم
اپنے راستے بدل گئے
ہے یقین کہ ان کے دَر پہ ہم
آج گر نہیں تو کل گئے
ان کے در پہ جو پہنچ گئے
ہر حصار سے نِکل گئے
ان پہ جب درود پڑھ لیا
حادثوں کے رُخ بدل گئے
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جمال تیرا
ان کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس گیا ہے جس کے جمال تیرا
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھۓ
دل ہے سو چیز تیری جاں ہے سو مال تیرا
گو حکم تیرے لاکھوں یا ں ٹالتے رہے ہیں
لیکن ٹلا نہ ہر گز دل سے خیال تیرا
گلشن کے رنگ و بو نے تیرا پتا بتا یا
غنچے کی مسکراہٹ لائی پیام تیرا
کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
عطا کرتُو شانِ کریمی کا صدقہ
عطا کردے شانِ رحیمی کا صدقہ
نہ مانگوں گا تجھ سے تو مانگوں گا کس سے
ترا ہوں میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
الٰہی ہمیشہ تو مسرور رکھنا
بلاؤں سے ہم کو بہت دور رکھنا
پریشانیاں ہم کو گھیرے ہوئے ہے
میں ان سے تیرا آسرا مانگتا ہوں
جو مفلس ہیں ان کو تو دولت عطا کر
جو بیمار ہیں ان کو صحت عطا کر
مریضوں کی خاطر شفا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
جو نادار ہیں کچھ نہیں جن کے پلّے
انہیں بھی دکھا دے حرم کے تو جلوے
حضوری ہو سب کی دعا مانگتاہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
وطن کے بھڑکتے شرارے بجھا دے
اے تو اخوت کا گلشن بنا دے
میں امن واماں کی ردا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
الٰہی تجھے واسطہ پنجتن کا
ہو شاداب غنچہ دلوں کے چمن کا
میں صدقہ غوث الورٰی مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آر ہا ہے وہ ہی خدا ہے
وہ ہی ہے مشرق، وہ ہی ہے مغر ب، سفر کریں سب اسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
تلاش اس کونہ کر بُتوں میں وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ؟وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پہ پہر ے بٹھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ،وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانۂ لا شعور میں جگمگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
کسی کو تاجِ و قار بخشے ،کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ہاتھوں پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
سفید اس کا ،سیا ہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے ،بجھا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
میں تیرے حُسنِ کرم اور عنایتوں کے نثار
ہو میرے رنگ میں سعدی کے گلستاں کی بہار
کلامِ عارف عرفی کا پیرہن بن جاؤں
میں زلفِ نعت کی خوشبو سے شب دلہن بن جاؤں
سِوا حضور کوئی خواب میں بھی آئے نہ غیر
طفیل بردۂ الطاف بر امامِ بوصیرؒ
تیرے کرم کے تصدّق، کر اور اِک احسان
کہ میری فکر پہ سایہ فگن رہیں حسّان ؓ
تمام عمر وہ نعتوں کا اہتمام رہے
کہ میرے گرد فرشتوں کا اژدھام رہے
طفیلِ شاہِ اُمم ، جن پہ صَد سَلام و درود
ادیب کا بھی ثناء میں مقام ہو محمُود
ہر خطا تو در گزر کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! مغفرت کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! کر دے پوری از پئے غوث و رضا رحمۃ اللہ علیہما
آرزوئے دید سرور بیکس و مجبور کی
زندگی اور موت کی ہے یا الٰہی کشمکش
جاں چلے تیری رضا پر بیکس و مجبور کی
اعلیٰ علیین میں یا رب ! اسے دینا جگہ
رُوح چلدے جب نکل کر بیکس و مجبور کی
یا خدا پوری تمنا ہو بقیع پاک کی
از پئے حسنین و حیدر بیکس و مجبور کی
واسطہ نور محمد ﷺ کا تجھے پیارے خدا !
گورِ تیرہ کر منور بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ کے میٹھے مدینے میں پئے غوث و رضا
حاضری ہو یا نبی ﷺ! ہر بیکس و مجبور کی
آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال! صدقہ فاطمہ رضی اللہ عنہا لال کا
دورساری آفتیں کر بیکس و مجبور کی
نفس و شیطانِ غالب آئے لو خبر اب جلد تر
یا رسول اللہ ﷺ! آکر بیکس و مجبور کی
جس کسی نے بھی دعاء کیواسطے یا رب !کہا
کر دے پوری آرزو ہر بیکس و مجبور کی
بہر شاہ کربلا ہو دور آقاﷺ ہر بلا
اے حبیب ﷺ ربِ داور! بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ خود تشریف لائے اپنے بیکس کی طرف
“آہ” جب نکلی تڑپ کر بیکس و مجبور کی
اے مدینے کے مسافر ! تو کہانی درد کی
اُن سے کہنا خوب رو کر بیکس و مجبور کی
حال بگڑا ! رُوح تڑپی جب مدینہ چھپ گیا
جان تھی غمگین و مضطر بیکس و مجبور کی
آپ کے قدموں میں گر کر موت کی یاد مصطفٰے ﷺ
آرزو کب آئیگی بر؟ بیکس و مجبور کی
نامہ عطار میں حسن عمل کوئی نہیں
لاج رکھنا روزِ محشر بیکس و مجبور کی
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
وہ راضی ہے تو پھر اہلِ جفا سے کچھ نہیں ہوگا
کسی ظالم کے جبرِ ناروا سے کچھ نہیں ہوگا
تُو وہ بیمار ہے جس کی شفا مکے میں لکّھی ہے
کہ اس تبدیلی ٔآب و ہوا سے کچھ نہیں ہوگا
مسیحا ایک ہے تیرا مدینے میں جو رہتا ہے
یہ سب قاتل ہیں اب ان کی دوا سے کچھ نہیں ہوگا
ترا معبود کیا پتھر کا بُت ہے ہل نہیں سکتا
وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں خدا سے کچھ نہیں ہوگا
چراغِ دل جلا اور پھر اُسے طوفان میں رکھ دے
خدا ہر شے پہ قادر ہے ہوا سے کچھ نہیں ہوگا
بہت اصحابِ فیل آئے جو باقی ہیں وہ آجائیں
یہی کعبہ رہے گا ابرھا سے کچھ نہیں ہوگا
یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کا ساتھ ہو
یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادی ٔدیدارِ حُسنِ مصطفٰے کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گور تیرہ کی جب آئے سخت رات
ان کےپیارے منہ کی صبح جانفزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب پڑے محشر میں شور دارو گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب زبانیں باہر آئیں پاس سے
صاحب کوثر شہِ جو دو سخا کا ساتھ ہو
یا الٰہی سرو مہری پر ہو جب خورشید حشر
سید بے سایہ کے ظلِ لو کا ساتھ ہو
یا الٰہی گرمیءِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامن محبوب ﷺ کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوش خلق ستار خطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب حساب خندہ بجار لائے
چشمِ گریاں شفیع ِ مرتضیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیاء کا ساتھ
یا الٰہی جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتاب ہاشمی نورُ الھدیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب سر شمشیر پر چلنا پڑے
ربِ سلم کہنے والے غمزدا کا ساتھ ہو
جب رضا خواب گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدارِ عشق مُصطفٰے ﷺکا ساتھ ہو
یہ زمین یہ فلک ان سے آگے تلک جتنی دنیائیں ہیں
سب میں تیری جھلک سب سب سے لیکن جدا
اۓ خدا اۓ خدا
ہر سحر پھوٹتی ہے رنگ سے ، سبزۂ و گل کھلیں سینہ سنگ سے
گونجتا ہے جہاں تیرے آہنگ سے
جس نے کی جستجو مل گیا اس کو تو سب کا رہنما
اۓ خدا اۓ خدا
ہر ستارے میں آباد سے اک جہاں ، چاند سورج تری روشنی کے نشاں
پتھروں کو بھی تو نے عطا کی زباں
جانور ، آدمی کر رہے ہیں سبھی تیری حمد و ثنا
اۓ خدا اۓ خدا
نور ہی نور بکھرا ہے کالک نہیں ، دوسرا کوئی حدگماں تک نہیں
تیری وحدانیت میں کوئی شک نہیں
لاکھ ہوں صورتیں ایک ہی رنگ میں تو ہے جلوہ نما
اے ٔ خدا اۓ خدا
سونپ کر منصب آدمیت مجھے تو نے بخشی ہے اپنی خلافت مجھے شوق سجدہ بھی کر اب عنایت مجھے
ہے میرا سر تیری دہلیز پر ہے یہی التجا
اۓ خدا اۓ خدا