وہ مطلع پیش کرتا ہوں میں توصیفِ محمد میں

وہ مطلع پیش کرتا ہوں میں توصیفِ محمد میں
جو نازل ہو رہا ہے قلب پر، انوار کی زد میں

بیاں کیسے ہو کتنا حُسن ہے ہر خال میں خد میں
جمالِ حق تعالیٰ جب ہوا موزوں اسی قد میں

نہ ہو کیوں حمد پر کرسی نشیں اِک میم شہ بن کر
کہ ایسا دلربا کوئی نہیں تھا شہرِ أبجد میں

ثنائے مصطفٰے میں یوں مجھے محسوس ہوتا ہے
کھڑا ہوں خوشبوؤں اور رنگ کے بارانِ بیحد میں

کشادِ لب خداوند یہی دو لفظ ہوں میرے
اِک انکے لطف بے حد پر اِک ان کے حُسن بیحد میں

قضا آئے دیارِ مصطفٰے میں مدح خوانوں کی
کفن میں لاش ہو، اور لاش ہو دربارِ احمد میں

جنازے میں ہوں قدسی، پیشِ قدسی مصطفٰے خود ہوں
قصیدہ پڑھ رہی ہو لاش میری شہ کی آمد میں

پڑھیں صَل عَلٰی اِرْحَم لَنَا اِرْحَم لَنَا سارے
اتاریں جب ادیبِ خوش بیاں کو لوگ مرقد میں