یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا!؟

یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا!؟
پھر اِن کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جُھکا تھا مُجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں، کہ ساری قندیلیں جِھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے؟ چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے!
یہی سَماں تھا کہ پیکِ رحمتْ خبر یہ لایا کہ چلیے حضرتﷺ
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اۓ محمد! قریں ہو احمد! قریب آ سرورِ مُمجَّد
نِثار جاؤں یہ کیا ندا تھی! یہ کیا سماں !تھا یہ کیا مزے تھے
تَبارَک َاللهُ شان تیری تجھی کو زَیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش ِلَنْ تَرَانِیْ کہیں تقاضے وصال کے تھے
Qaseeda-e-me’raaj part/8