یوں ترقی پر ہو یار ب میری مستی ایک دن

یوں ترقی پر ہو یار ب !میری مستی ایک دن
یعنی دیکھوں خواب میں طیبہ کی بستی ایک دن

خاک طیبہ میں کہیں اۓ کاش !مل جائے یہ خاک
کام آ جائے مری ناکارہ ہستی ایک دن

یہ دلِ پژمردہ ہو جاتا شگفتہ بالیقیں
ابرِ رحمت کی اگر بدلی برستی ایک دن

چہرۂ انور دکھا دو خواب میں آکر مجھے
جان نکل جائے نہ صورت کو ترستی ایک دن

بحر عصیاں گو ہے طوفاں پر، نہیں مایوس دل
جنسِ رحمت پاہی لیں گے ان سے سستی ایک دن

محو ہو جاتے معاصی میرے نؔرّے سب کے سب
لطف و سُرور کی اگر بدلی برستی ایک دن