قلب عاشق ہے اب پارہ پارہ
الوداع الوداع ماہِ رمضان
کلفت ہجر و فرقت نے مارا
تیرے آنے سے دل خوش ہواتھا
اور ذوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ!اب دل پہ ہے غم کا غلبہ
الوداع الوداع ماہِ رمضان
مسجدوں میں بہار آگئی تھی
جوق در جوق آتے نمازی
ہو گیا کم نمازوں کا جذبہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
بزم افطار سجتی تھی کیسی !
خوب سحری کی رونق بھی ہوتی
سب سماں ہو گیا سُونا سُونا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تیرے دیوانے اب رو رہے ہیں
مضطرب سب کے سب ہو رہے ہیں
ہائے اب وقتِ رخصت ہے آیا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
تم پہ لاکھوں سلام ماہِ ر مضاں
تم پہ لاکھوں سلام ماہِ غفراں
جاؤ حافظ خدا اب تمہارا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
نیکیاں کچھ نہ ہم کرسکے ہیں
آہ!عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے !غفلت میں تجھ کو گزارا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ
تیری آمد کا پھر شور ہوگا
کیا مِری زندگی کا بھروسہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
کچھ نہ حُسن ِ عمل کر سکا ہوں
نذر چند اشک میں کر رہا ہوں
بس یہی ہے مِرا کُل اثاثہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
ہائے عطار بیکار کاہل
رہ گیا یہ عبادت سے غافل
اس سے خوش ہو کے ہونا روانہ
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
سال آئندہ شاہِ حرم تم
کرنا عطار پر یہ کرم تم
تم مدینے میں رمضاں دکھانا
الوداع الوداع ماہِ رمضاں
قَادرا ،سَرورا، رَاہنما، دستگیر
غوثِ اعظم، امامِ مُبیں، بے نظیر
تیرے زیرِ قدم اولیاء ،اصفیاء
سَرورِ سَروراں ،پیرِ روشن ضمیر
ذکر سے تیرے ٹل جائیں سب مشکلیں
نام سے تیرے پائیں رہائی اسیر
تو جِسے چاہے دے، جس قدر چاہے دے
تیری بخشش نرالی عطا بے نظیر
تو ہے آئینہ سیرتِ مصطفٰے
تو علیم وخبیر و بشیر و نذیر
یہ وظیفہ ہے ہر غم کا دَرماں وؔقار
غوثِ اعظم مدد! المدد دستگیر !
قدم آگے بڑھا زینہ بہ زینہ
تجھے مل جائے گا اِک دن مدینہ
نگاہوں میں خطاؤں کا تصور
جبیں پر ہے ندامت کا پسینہ
مِرا دل مسکنِ عشق نبی ہے
نہ ڈوبے گا کبھی میرا سفینہ
تمہارا ذکر ہے محفل بہ محفل
تمہاری یاد ہے سینہ بہ سینہ
بفیض اِذۡن سرکار ِ دو عالم
مجھے آجائے جینے کا قرینہ
محمد مصطفٰےتشریف لائے
مہینوں میں ہے افضل یہ مہینہ
جو لوگ اخؔتر بصیرت کھو چکے ہیں
اُنہیں درکار ہے خاک مدینہ