یا رب سنائیں ہم کسے اب مدعاۓ دل
ہیں نہیں جہاں میں حاجت روائے دل
کیا کہئے بحر شوق اب ماجرائے دل
دل ہے سفینہ اور وہ ہیں نا خدائے دل
آئینۂ حیات کی تکمیل کے لئے
لازم ہے کائنات میں صدق و صفائے دل
دل اور درد دونوں میں اک ربط خاص ہے
دل آشنائے درد ہے درد آشنائے دل
ہر ٹیس جس کی تیری طرف ملتفت کرے
یا رب وہ درد چاہیے مجھ کو برائے دل
دنیائے دل کا حال نہ پوچھو فراق میں
مصروف انتظار ہیں صبح و مسائے دل
صدہا اٹھائیں دل کی بدولت صعوبتیں
دیکھو نصیرؔ اور ابھی کیا کیا دکھائے دل