کِسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا؟
بھرا جو مثلِ نظر طَرَارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چُھپے تھے
اُٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے؟
وہاں تو جاہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غُنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے، گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
مُحیط و مرکز میں فرق مشکل ،رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حَیرت میں سَر جُھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حِجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ،ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وَصْل وفُرقت، جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بَھنور کو یہ ضُعفِ تِشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر!
اُسی کے جلوے، اسی سے ملنے ،اُسی سے، اُس کی طرف گئے تھے
Qaseeda-me’raaj/10