عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی؟
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
ان کے در نے سب سے مستغنیٰ کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا
ناخدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتو! نکلو سہارا مل گیا
آنکھیں پر نم ہوگئیں سر جھک گیا
جب تِرا نقشِ کفِ پا مل گیا
خُلد کیسی ؟ کیا چمن؟ کس کا وطن؟
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تِرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانہ مل گیا
اۓ حؔسن فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا