بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے
مجرم بلائے آئے ہیں جاوءک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
اپنا شرف دعا سے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی عصر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی بارات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولہا کے سر کی ہے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی ٴ زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
لب واہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج
یہ ساری گتھی اک تیری سیدھی نظر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پر دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
ہا ں تو نے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے جو کر نی بشر کی ہے
ثابت ہوا جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
آ کچھ سنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّتِ سوزِ جگر کی ہے