ہر ایک لمحے کے اندر قیام تیرا ہے
زمانہ ہم جسے کہتے ہیں نام تیرا ہے
درائے اول و آخر ہے تو مرے مولٰی
نہ ابتدا نہ کوئی اختتام تیرا ہے
تری ثنا میں ہے مصروف بےزبانی بھی
سکوتِ وقت کے لب پہ کلام تیرا ہے
شعور نے سفرِ لاشعور کر دیکھا
تمام لفظ ہیں اسکے ’دوام‘ تیرا ہے
تمام عمر کٹے اِک طویل سجدے میں
اِس اختصار کی بخشش بھی کام تیرا ہے
بہت قریب ہے فطرت سے روحِ انسانی
ہر اِک نظام سے بڑھ کر نظام تیرا ہے
وہ خود کو جان گیا جس نے تجھ کو پہچانا
وہ محترم ہے جسے احترام تیراہے
ہر ایک سانس سے آواز آرہی ہے تری
مرا دھڑکتا ہُوا دل، پیام تیرا ہے
کہاں بیانِ مُظؔفّر کہاں بڑائی تری
جو تھا جو اب ہے جو ہوگا، تمام تیرا ہے
ہے پاک رُتبہ فکر سے اس بے نیاز کا
کچھ دخل اقل کا ہے نہ کام امتیاز کا
شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجاب
کیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا
لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرے ہوئے
اللہ رے جگر ترے آگاہ راز کا
غش آ گیا کلیم سے مشتاق عشق کو
جلوہ بھی بے نیاز ہے اس بے نیاز کا
ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانِع کی صنعتیں
عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا
افلاک و ارض سب ترے فرماں پزیر ہیں
حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا
اِس بیکسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئی
شُہرہ سُنا جو رحمتِ بیکس نیاز کا
مانندِ شمع تیری طرف لو لگی رہے
دے لطف مری جان کو سوز و گداز کا
تو بےحساب بخش کے ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا
بندہ پے تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط
اللّہ کر علاج مری حرص و آز کا
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسن
بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کارساز کا
ہے کلام ِ الٰہی میں شمس و ضحٰے ترے چہرۂ نور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ جیب کی زلف ِ دو تا کی قسم
تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کِسی کو ملے نہ کِسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقاکی قسم
تِرا مسند ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرم راز ہے رُوح ِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تیرا
مجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم
تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعا
مجھے جلوۂ پاک رسول دکھا تجھے اپنے ہی عزّ و علا کی قسم
مرے گرچہ گناہ ہیں حد سے سوا مگر ان سے امید ہے تجھ سے رَجا
تو رحیم ہے ان کا کرم ہے گو وہ کریم ہیں تیری عطا کی قسم
یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحربیاں
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہدیٰ مجھے شوخی طبعِ رضا کی قسم
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مَولےٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
ہوئی مدحِ پیمبر اور حمدِ خالق باری
بصد گریہ ، بصد نالہ، بصد آہ و بصد زاری
قلم ہے دم بخود، جذبات ساکِن ، روح لرزاں ہے
ادب، خاتونِ جنّت ، فاطمہ زہرٰی کی ہے باری
کمال ِ ذکرِ زہرٰی سے اگر ہستی ہوئی اکمل
جمال ذکرِ نورِ فاطمہ سے دل بنا اجمل
یہ توقیر ِ محبّت ہے کہ یہ تاثیرِ نسبت ہے
سخن سنجی ہوئی اَحسن زباں دانی ہوئی افضل
تخلیق میں تسلیم و رضا جن کے خصائل
معصوم، مخیّر ، متصرّف ، متکفّل
سرکارِ دو عالم کی طرح فاطمہ زہرٰی
مشفق، متبسّم ، متحمّل ، متوکلّ
وہ حامد و محمود کی اُلفت کا ظہُور
وہ رحمتِ کُل قاسمِ مقسوم کا نُور
یہ شان، مگر عالمِ تسلیم و رضا
چکّی کی مشقّت ، بہ تبسّم منظور
شفیعٌ سراجٌ منیرٌ کی دُختر
شجاعٌ شریفٌ شہیدٌ کی مَا در
وہ خاتونِ جنّت ، وہ جنّت کی حُرمت
امیرٌ جریٌ علی جِن کے شوہر
جِس کو رحمٰن و رحیم و رحمتِ کُل کا شعور
جس کو عرفانِ محمد ، جس کو فیضانِ رسول
ذی حسب، اعلیٰ نسب، زہرٰی لقب، ذوالاحترام
دیدنیٔ مصطفٰے اور دیدۂ رحمت کا نُور
ہم طلبگارِ سخاوت یا علی مشکل کشا
تم عنایت ہی عنایت یا علی مشکل کشا
بازوئے خیبر شکن ، اور لقمۂ نانِ جویں
اے شہنشاہِ قناعت یا علی مشکل کشا
آپ کو نسبت رسول اللہ سے ہے اور میں
آپ رکھتا ہوں نسبت یا علی مشکل کشا
عاشقوں کا دل ہے کعبہ اور دل کی دھڑکنیں
مطربِ جشنِ ولادت یا علی مشکل کشا
مردِ مومن کا سہارا ، حرّیت کی آبرو
قلبِ مومن کی حرارت یا علی مشکل کشا
وہ شجاعت ہو، سخاوت ہو، قناعت یا جہاد
آپ ہی کی ہے قیادت یا علی مشکل کشا
فاتحِ خیبر تمہارے چاہنے والوں پہ آج
دشمنوں نے کی ہے شدّت یا علی مشکل کشا
پھر وہی بغداد و مصر و شام کے ہیں صبح و شام
دیجیے شوقِ شہادت یا علی مشکل کشا
در گزر میں آپ سے بڑھ کر کوئی گزرا نہیں
اے سراپائے محبت یا علی مشکل کشا
در گذر کیجیے خطا اور دیجیے اس قوم کو
اپنا بازو، اپنی ہمّت یا علی مشکل کشا
آپ کے در سے ادب سے مانگتا ہے یہ ادیب
صدقہ ٔ خاتونِ جنّت یا علی مشکل کشا
ہے ذکرِ سرورِ سدا جہاں میں رفیق
یہی رہا ہے ہر اِک مشکل امتحان میں رفیق
اگر حضور ﷺنہ ہوتے تو ہم غریبوں پر
نہ اِس جہاں میں کوئی تھا نہ اُس جہاں میں رفیق
ہمیں تو حشر میں خورشید نے بھی ٹھنڈک دی
کہ تھی رسول کی رحمت جو درمیاں میں رفیق
کہاں کہاں میرے آقا نے گھر بنایا تھا
رہے وہ بن کے ہر ایک قلب دشمنان میں رفیق
بھنور ہو ، مو ج ہو ، طوفاں ہو ، پھر بھی ذکرِ نبی
غم و الم کے رہا بحرِ بیکراں میں رفیق
بلند کیوں نہ ہو اشعار کا مِرے رتبہ
میرے سخن کے ہیں ، وہ کوچۂ زباں میں رفیق
ادیبؔ ، نعت کا ہر لفظ ہے دُرِّ نایاب
دُرِّ یتیم کا احسان ہے درمیاں میں رفیق
ہمارے دل سے زمانے کے غم مِٹا یا ربّ
ہو میٹھے میٹھے مدینے کا غم عطا یا ربّ
غمِ حیات ابھی راحتوں میں ڈھل جائیں
تِری عطا کا اشارہ جو ہو گیا یا ربّ
پئے حُسین و حَسن فاطمہ علی حیدر
ہمارے بگڑے ہوئے کام دے بنا یا ربّ
ہماری بگڑی ہوئی عادتیں نکل جائیں
ملے گناہوں کے اَمراض سے شِفا یا ربّ
مجھے دے خود کو بھی اور ساری دنیا والوں کو
سُدھارنے کی تڑپ اور حوصَلہ یا ربّ
ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسِطے اٹھیں
بچانا ظلم و ستم سے مجھے سدا یا ربّ
رہیں بھلائی کی راہوں میں گامزن ہر دم
کریں نہ رخ مِرے پاؤں گناہ کا یا ربّ
گنہگار طلبگار عَفو و رَحمت ہے
عذاب سَہنے کا کس میں ہے حوصلہ یا ربّ
عطا ہو “نیکی کی دعوت” کا خوب جذبہ کہ
دوں دھوم سنّتِ مَحبوب کی مچا یاربّ
عطا ہو ہمیں قبولِ عام
اور شُرور و فِتن سے سدا بچا یا ربّ
میں پُل صراط بِلا خوف پار کر لوں گا
تِرے کرم کا سہارا جو مل گیا یا ربّ
کہیں کا آہ! گناہوں نے اب نہیں چھوڑا
عذابِ نار سے عطّار کو بچا یا ربّ
ہر خطا تو در گزر کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! مغفرت کر بیکس و مجبور کی
یا الٰہی ! کر دے پوری از پئے غوث و رضا رحمۃ اللہ علیہما
آرزوئے دید سرور بیکس و مجبور کی
زندگی اور موت کی ہے یا الٰہی کشمکش
جاں چلے تیری رضا پر بیکس و مجبور کی
اعلیٰ علیین میں یا رب ! اسے دینا جگہ
رُوح چلدے جب نکل کر بیکس و مجبور کی
یا خدا پوری تمنا ہو بقیع پاک کی
از پئے حسنین و حیدر بیکس و مجبور کی
واسطہ نور محمد ﷺ کا تجھے پیارے خدا !
گورِ تیرہ کر منور بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ کے میٹھے مدینے میں پئے غوث و رضا
حاضری ہو یا نبی ﷺ! ہر بیکس و مجبور کی
آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال! صدقہ فاطمہ رضی اللہ عنہا لال کا
دورساری آفتیں کر بیکس و مجبور کی
نفس و شیطانِ غالب آئے لو خبر اب جلد تر
یا رسول اللہ ﷺ! آکر بیکس و مجبور کی
جس کسی نے بھی دعاء کیواسطے یا رب !کہا
کر دے پوری آرزو ہر بیکس و مجبور کی
بہر شاہ کربلا ہو دور آقاﷺ ہر بلا
اے حبیب ﷺ ربِ داور! بیکس و مجبور کی
آپ ﷺ خود تشریف لائے اپنے بیکس کی طرف
“آہ” جب نکلی تڑپ کر بیکس و مجبور کی
اے مدینے کے مسافر ! تو کہانی درد کی
اُن سے کہنا خوب رو کر بیکس و مجبور کی
حال بگڑا ! رُوح تڑپی جب مدینہ چھپ گیا
جان تھی غمگین و مضطر بیکس و مجبور کی
آپ کے قدموں میں گر کر موت کی یاد مصطفٰے ﷺ
آرزو کب آئیگی بر؟ بیکس و مجبور کی
نامہ عطار میں حسن عمل کوئی نہیں
لاج رکھنا روزِ محشر بیکس و مجبور کی
یا حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لو
جو وفا کی راہ مین کھو گیا اسی گمشدہ کا سلام لو
میں طلب ساے باز نہ آؤں گا تو کرم کا ہاتھ بڑھائے جا
جو تیرے کرم ساے ہیں آشنا اسی آشنا کا سلام لو
میری حاضری ہو مدینے میں مِلے لطف مجھ کو بھی جینے میں
تیرا نور ہو میرے سینے میں میری اس دُعا کا سلام لو
وہ حُسین جس نے چھڑک کے خون چمنِ وفا کو ہرا کیا
اس جانثار کا واسطہ کہ ہر اک گدا کا سلام لو
کوئی مر رہا ہے بہشت پر کوئی چاہتا ہے نجات کو
میں تجھی کو چاہوں خدا کرے میری اس دعا کا سلام لو
تمام اولیاء کے بلند سر ہیں قدم پہ جنکے جُھکے ہوئے
اُسی پیارے غوث کا واسطہ ہے بے کسوں کا سلام لو
ہو کرم سرکار اب تو ہو گئے ہیں غم بیشمار
جان و دل تم پر فیدا اۓ دہ جہاں کے تاجدار
میں اکیلا اور مسائل زندگی کے بیشمار
آپ ہی کچھ کیجیے نہ اے ٔ شاہ ِ عالی وقار
یاد عطا ہے طواف ِ خانہ ٔ کعبہ مجھے
اور لپٹنا ملتزم سے والہانہ بار بار
سنگ ِ اسود چوم کر ملتا مجھے کیف و سُرور
چین پاتا دیکھ کر دل مستجاب و متجار
گمبد ِ خضریٰ کے جلوے اور وہ افطاریاں
یاد آتیں ہیں رمضان ِ طیبہ کی بہار
یا رسول اللہ ﷺ سن لیجیے میری فریاد کو
کون ہے جو کہ سنے تیرے سوا میری پکار
غم زدہ یوں نہ ہوا ہوتا عبید قادری
اس برس بھی دیکھتا گر سبز گمبد کی بھار
ہے یہ دل کی صدا یا نبی یا نبی
ہو عطا پر عطا یا نبی یانبی
جس گھڑی روح تن سے جدا ہو میری
ہو وظیفہ میرا یانبی یا نبی
آپ ہی بخشوائیں گے محشر کے دن
ہوں بھلا یا بُرا یا نبی یانبی
آئیں جس دم فِرِشتے میری قبر میں
ہو لبوں پہ ثنا یا نبی یا نبی
مصطفٰےﷺکا اگر چاہتے ہو کرم
مل کے کہہ دو ذرا یا نبی یا نبی
رَدّ کبھی نہ دعا ہو گی اس شخص کی
دے گا جو واسطہ یا نبی یا نبی
اس معینِ حزیں پہ کرم کیجیے
دَر گزر ہو خطا یا نبی یا نبی
ہر بات اِک صحیفہ تھی امی رسول کی
الفا ظ تھے خدا کے ، زباں تھی رسول کی
وحدانیت کے پھول کھلے گرم ریت پر
دی سنگ بے زباں نے گواہی رسول کی
پرچم تھے نقش پاکے ، ستاروں کے ہاتھ میں
گزری جو کہکشاں سے ، سواری رسول کی
سیڑھی لگائے عرش خدا پر نبی کی یاد
چلتی ہے سانس ، تھام کے انگلی رسول کی
دیکھیں گے میرے سر کی طرف لو گ حشر میں
چمکے گی تاج بن کے غلامی رسول کی
پہلا قدم ازل ہے ، ابد آخری سفر
پھیلی ہے کائنات پہ ہستی رسول کی
کھلتے ہیں در کچھ اور مؔظفر شعور کے
کرتا ہوں جب میں بات خدا کی ، رسول کی
ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے
آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے
کیوں کہوں یہ عطا وہ عطا چاہیے؟
ان کو معلوم ہے ہم کو کیا چاہیے
اِک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور !
ہر قدم پر کرم آپ کا چاہیے
عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں
ہر تڑپ میں بِاللی ادا چاہیے
اور کوئی بھی اپنی تمنا نہیں
ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہیے
اپنے قدموں کا دُھوَن عطا کیجئے
ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے
در دِ جامی ملے، نعت خاؔلد لکھوں
اور اندازِ احمد رضا چاہیے
ہوگئے ہیں دور سب رنج والم
جب ہوا سرکار کا مجھ پر کرم
ہے یقیں دربار میں اپنے مجھے
ایک دن بلوائیں گے شاہِ امم
ہے جسے نسبت میرے سرکار سے
پاس اُس کے کیوں بھلا آئینگے غم
بس یہی ہے التجا محشر کے دن
آپ رکھ لینا غلاموں کا بھر م
جل اُٹھیں گے آرزؤں کے دیے
جب درِ سرکار پہ جائیں گے ہم
آرزو اب ہے یہی میری معیؔن
اُن کے روضے پہ نکل جائے یہ دم
ہمیں اپنا وہ کہتے ہیں ، محبت ہو تو ایسی ہو
ہمیں نظروں میں رکھتے ہیں عنایت ہو تو ایسی ہو
وہ پتھر مارنے والوں کو دیتے ہیں دُعا اکثر
لاؤ کوئی مثال ایسی، شرافت ہو تو ایسی ہو
اشارہ جب وہ فرمائے ، تو پتھ ر بول اُٹھےی ہیں
نبوت ہو تو ایسی ہو ، رِسالت ہو تو ایسی ہو
وہاں مجرم کو ملتی ہیں پنا ہیں بھی جزائیں بھی
مدینے میں جو ل گتی ہے عدالت ہو تو ایسی ہو
بنا دیتے ہیں سائل کو سکندر وہ زمانے کا
کریمی ہو تو ایسی ہو، سخاوت ہو تو ایسی ہو
محمدﷺ کی ولادت پر ہوئے سب کو عطا بیٹے
اِسے میلاد کہتے ہیں ، ولادت ہو تو ایسی ہو
زمین وآسماں والے بھی آتے ہیں غلامانہ
حقیقت ہے یہ ہی ناؔصرحکومت ہو تو ایسی ہو
ہم کو بلانا یا رسول اللہ
ہم کو بلانا یا رسول اللہ
کبھی تو سبز گنبد کا اُجالا ہم بھی دیکھیں گے
ہمیں بلائیں گے آقا ، مدینہ ہم بھی دیکھیں گے
تڑپ اُٹھے گا یہ دل، یا دھڑکنا بھول جائیگا
دلِ بسمل کا اس در پر ، تماشہ ہم بھی دیکھیں گے
ادب سے ہاتھ باندھے ان کے روضہ پرکھڑے ہونگے
سنہری جالیوں کا یوں نظارا ، ہم بھی دیکھیں گے
درِ دولت سے لوٹایا نہیں جاتا کوئی خالی
وہاں خیرات کا بٹنا خدایا ہم بھی دیکھیں گے
گزارے رات دن اپنے اسی اُمید پر ہم نے
کسی دن کو جمالِ روزِ زیبا ہم بھی دیکھیں گے
دمِ رُخصت قدم من بھر کے ہی محسوس کرتے ہیں
کِسے ہے جا کے لوٹنے کا یارا ہم بھی دیکھیں گے !؟